Pakistan army to help enforce Covid normsتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یوایس )پاکستان کی وفاقی حکومت کے اعلان کے بعد فوج نے کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کے لیے سڑکوں پر گشت شروع کر دیا ہے۔فوجی اہل کار لاہور، اسلام آباد، ملتان، گوجرانوالہ، بہاولپور، فیصل آباد، پشاور اور میر پور سمیت دیگر شہروں میں گشت کرتے دکھائی دیے۔پیر کو راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے کہا کہ فوجی جوان سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور پیر کی صبح چھ بجے کے بعد سے فوجی جوانوں نے اپنی ڈیوٹی شروع کر دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی تیسری لہر بہت خوفناک ہے۔ لہذٰا عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ مسلح افواج اس تعیناتی کے عوض انٹرنل سیکیورٹی الاؤنس بھی وصول نہیں کرے گی۔خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں بھی وبا کی بے قابو ہوتی صورتِ حال کے پیشِ نظر مکمل لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے۔ ضلع میں سول انتظامیہ کے ساتھ فوج کو بھی تعینات کیا گیا ہے تاکہ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کرایا جا سکے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی مشکل صورتِ حال یا آفت سے نمٹنے کے لیے فوج کو مدد کے لیے طلب کر سکتی ہے۔حکومت کو فوج کی طلبی سے متعلق آئین میں حاصل اختیار کے باوجود بعض سیاسی رہنما آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی طلبی کو ‘منی مارشل لا’ تصور کرتے ہیں۔پاکستان کو اس وقت کورونا وائرس کی تیسری لہر کا سامنا ہے اور کیسز اور اموات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں حکومت جہاں عوام کو کورونا احتیاط پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کر رہی ہے وہیں صوبے نئی پابندیوں کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے وزارتِ داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری نوٹی فیکیشن کے بعد بدستور یہ سوال موجود ہے کہ فوج کس طرح کورونا احتیاط پر عمل درآمد کرائے گی۔نوٹی فکیشن کے مطابق حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا ہے جو کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت تین صوبوں میں سول اداروں کے ہمراہ خدمات انجام دے گی۔ تاہم سندھ حکومت نے وفاق سے درخواست کے باوجود صوبے میں فوج کو بھجوانے کا تاحال فیصلہ نہیں کیا۔

پاکستان کی سیاسی حکومتیں وقتاً فوقتاً ہنگامی حالات اور امن و امان کی صورتِ حال کے پیش نظر فوج کو سول اداروں کی مدد کے لیے طلب کرتی رہی ہیں۔ماضی میں آفات سے نمٹنے کے علاوہ فوج کی طلبی کے فیصلے کو سیاسی تنقید کا سامنا رہا ہے۔اس سے قبل نومبر 2017 میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے پیش نظر فوج کو وفاقی دارالحکومت کے حساس مقامات کی حفاظت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔اس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے حکم پر وزارتِ داخلہ نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو فوری طور پر طلب کیا تھا۔اس کے علاوہ گزشتہ حکومت نے جولائی 2014 میں وفاقی دارالحکومت میں فوج کو تعینات کیا تھا۔ اگرچہ حکومت نے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف ‘آپریشن ضربِ عضب’ کے ممکنہ ردِ عمل سے بچنے کے لیے فوج کو طلب کرنے کا جواز بتایا تھا تاہم اس عمل کو تحریکِ انصاف کے اسلام آباد کی جانب مارچ کے تناظر میں دیکھا گیا اور تنقید کی گئی۔

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی 2010 میں اپنی حکومت کے دوران بدترین سیلاب کی صورتِ حال اور امدادی سرگرمیوں میں مدد کے لیے فوج کو طلب کیا تھا۔سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے 1977 میں لاہور میں حکومت مخالف احتجاج کو روکنے کے لیے بھی آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا تھا۔آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت جہاں کہیں بھی سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا جاتا ہے تو ا±س علاقے میں ہائی کورٹ کے اختیارات ختم ہوجاتے ہیں۔فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی فوج کی طرف سے ہونے والی کارروائی کے خلاف عدالت سے حکمِ امتناع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ٓئین کے آرٹیکل 245 کی پہلی شق کے مطابق وفاقی حکومت ملک کو درپیش بیرونی خطرات کے دفاع، جنگ کی دھمکی اور قانون کی عمل داری کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کر سکتی ہے۔اس آرٹیکل کی شق نمبر دو کے مطابق وفاقی حکومت کے اس اقدام کو کسی عدالت میں زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔آرٹیکل 245 کی تیسری شق کے تحت ملک کی ہائی کورٹس آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت حاصل اختیارات سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کی کارروائی کے خلاف استعمال نہیں کر سکتیں۔

تاہم فوج طلب کیے جانے سے قبل مقدمات کی سماعت متاثر نہیں ہو گی۔اس آرٹیکل کی شق نمبر چار کے تحت جس علاقے میں فوج سول انتظامیہ کی مدد کر رہی ہو اس علاقے کے حوالے سے ہائی کورٹس میں زیرِ سماعت مقدمات کی سماعت نہیں کی جا سکے گی۔پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جس میں سے 89 ہزار 219 مریض بدستور زیرِ علاج ہیں۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق پاکستان میں عالمی وبا سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 17 ہزار 187 تک پہنچ گئی ہے۔ پیر کو وبا سے مزید 70 اموات اور چار ہزار سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔دوسری جانب حکومتِ سندھ نے 29 اپریل سے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بند کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ صوبے بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو بھی بدستور بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے صوبے بھر کے سرکاری دفاتر میں صرف 20 فی صد ضروری عملے کے ساتھ کام کی اجازت ہو گی۔خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں وبا کی بے قابو ہوتی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ ضلعے میں سول انتظامیہ کے ساتھ فوج کو بھی تعینات کیا گیا ہے تاکہ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *