Pakistan conspiring demographic change in PoJK and Gilgit-Baltistan by settling its army men and Chinese: Reportتصویر سوشل میڈیا

پاکستان کی فاسد و ناپاک سازشوںنے ایک بار پھر پاک مقبوضہ جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطے کو اپنے شکنجہ میں کسنے کے لیے اپنے زہریلے پنجے گاڑ دیے ہیں ۔اس خطہ میں شیعہ آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے ۔پاک مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں اقلیتوں کی نشانہ بند نسل کشی اور پنجابی اعلیٰ شخصیات اور فوجی عہدیداروں کو بسانا پاکستان کی جغرافیائی تبدیلی کی کوششوں کا اجاگر کرتاہے ۔پاکستان اپنے مقبوضہ کشمیر سے سکھوں کا صفایہ کرنے میں پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے ۔اور اب اس نے یہ نئی شکل اختیار کر لی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے کام کر رہے مزدوروں کے بھیس میں چینی مزدوروں اور فوجیوں کو ان علاقوں خاص طور پر گلگت بلتستان میں بسایا جانے لگا ہے۔ لا اینڈ سوسائٹی لائنس کی ”معاملہ انسانی زندگی کا: جموں و کشمیر اور پاک مقبوضہ کشمیر /گلگت بلتستان میں انسانی ترققی و انسانی حقوق کا جامع مطالعہ اور تجزیہ “ کے عنوان سے جاری ایک رپورٹ میں جموں و کشمیر اور پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر (پی او جے کے) گلگت بلتستان(جی بی) میں انسانی ترقی اور حقوق انسانی کی صورت حال کے حوالے سے تفصیل سے بتایا گیا ہے ۔ سالانہ مختصی بجٹ کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر اور پاک مقبوضہ کشمیر میں صحت و تعلیم کے شعبوں میں مختص کیے گئے بجٹ کا موازنہ کرنے سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ ہندوستان جو بجٹ مختص کرتا ہے وہ پا مقبوضہ کشمیر کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔اس امر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان ریاستوں کی فہرست میں جہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات نہایت کم ہیں ،ملازمتوں کے بے پناہ مواقع ہیں اور متعدد اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں ،جموں و کشمیر بھی عمدہ کارکردگی دکھانے والی ریاست کے طور پر شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں کیے گئے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی ترقیاتی اشاریہ (ایچ ڈی آئی) اور خواندگی شرح کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں اور طبی مراکز کی کمی کے باعث گلگت بلتستان دنیا کے نہایت ترقی پذیر علاقوں میں سے ایک ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی ایک اہم اینکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ پانچ عشروں 1967اور2011کے درمیان کی گئی مردم شماری جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کم و بیش یکساں ہے جو اس امر کو اجاگر کرتی ہے آج کی تاریخ تک جموں و کشمیر میں کوئی جغرافیائی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اسی طرح پاک مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی کے ذریعہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک بھی زبان کو پاکستان نے سرکاری زبان کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور اردو لاد دی جو ایک نہایت قلیل آبادی بولتی ہے ان میں سے بھی زیادہ تر پنجابی ممتاز شخصیات ہیں۔ جو اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان مشرقی زبانوں سے متعلق اپنی ذہنیت سے ابھی آزاد نہیں ہوا ہے اور قبل آزادی والے مسلم لیگ ایجنڈے پرہی چل رہا ہے۔ چین کے دباؤ میں پاکستان پورے ملک کے اداروں میں اسے تھوپتا نظر آرہا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان نے اپنے آئین کے تحت کشمیر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی تین زبانوں کشمیری، ڈوگری اور اردو کو تسلیم کیا ہے۔پاک مقبوضہ کشمیر /گلگت بلتستان میں ھقوق انسانی کی موجودہ صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔

کئی عالمی جائزوں اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے حقوق انسانی کی 2018اور2019میں پیش کر دہ دو رپورٹوں میں اس بات کو خصوصی ذکر کیا گیا کہ مذہبی اور غیر مذہبی اقلیتوں کو آئینی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور ریاست اور غیر ریاستی عناصران پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں۔ انسدا د دہشت گردی قانون، جبری گمشدگی ، توہین رسالت قوانین، اور دیگر قومی سلامتی ضوابط کی آڑ میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پاک مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بغاوت کو بزور طاقت کچل رہی ہیں ۔اسی طرح پاک مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں صحافت اور بولنے کی آزادی زبردست بحران سے دوچار ہے ۔ راست سنسر شپ کے علاوہ پاکستان خبروں کے متن میں بالواسطہ راستوں سے من مانی کمی بیشی کرتا ہے۔ حقیقی کنٹرول لائن کے دوسری طرف صورت حال نسبتاً بہتر نظر آتی ہے کیونکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہحکومت ہند نے جموں و کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں کے تحفظ کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر دیے ۔ مزید برآں مقامی کشمیر ذائع ابلاغ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔

پاک مقبوضہ کمشیر اور گلگت بلتستان میںئینی ڈھانچہ لنگڑا لولا اور کمزور ہے۔اول تو پاکس مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کا آئین پاکستان میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔پاک مقبوضہ کشمیرعبوری آئین ہے جس میں پاکستان اپنی سہولت اور فائدے کے مطابق ترمیم کرتا رہتا ہے اور گلگت بلتستان کا کا تو کوئی دستور ہی نہیں ہے۔گلگت بلتساتن میں تو حالت اور بھی تشویش کن ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان کونسل کے تمام اختیارات خود پاکستانی وزیر اعظم کو تفویض کیے جا چکے ہیں۔اور اسی کا کہاحرف آخر ہوتا ہے۔ دوسری جانب رپورٹ سے معلو مہوا ہے کہ انسانی ترقی والے شعبوں میں ہندوستان کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد ریاست کی دو مرکزی علاقوں میں تقسیم جموں و کشمیر کے بجٹ اور خطہ کے لیے مرکزی حکومت کے ذریعہ مختص کی گئی رقم میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کئی پراجکٹس چالو ہونے والے ہیں اور دیگر شعبوں کے علاوہ توانائی، سڑکوں ، بنیادی ڈھانچہ اور تجارت و اقتصادیات کے حولاے سے کئی امید افزا فیصلہ کیے گئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *