پیرس: منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہے اور اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی نظام میں باقی ماندہ خلا کو جلد از جلد دور کرے۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان جون 2018 سے ہی پیرس میں قائم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ اسے اکتوبر 2019 تک مقررہ اہداف کو پورا کرنے کا ایکشن پلان دیا گیا تھا لیکن ایف اے ٹی ایف کے ا منصوبہ عمل پر عمل آوری میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان کوگرے لسٹ میں ہی برقرار رکھا گیاہے۔
اخبار ‘دی ڈان’ کی خبر کے مطابق ایکشن پلان کے 34 میں سے 32 نکات پر پورا اترنے کے باوجود جمعہ کو ایف اے ٹی ایف کے ضمنی اجلاس کے اختتامی اجلاس میں پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم، ایف اے ٹی ایف کے ضمنی اجلاس کے اختتامی اجلاس میں پاکستان کے مالیاتی جرائم سے لڑنے کے عالمی وعدوں پر مضبوط پروگرام کے لیے اس کی تعریف کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اکتوبر 2021 میں، ایف اے ٹی ایف نے اپنے 27 نکاتی ایکشن پلان کے 26 نکات پر پاکستان کی پیشرفت کو تسلیم کیا تھا، لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم قرار دیے گئے دہشت گرد گروپوں کے اعلی کیڈرز کے خلاف دہشت گردی کی مالی معاونت کی تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کی منظوری بھی دی تھی ۔
اس کی گرے لسٹ میں (انتہائی نگرانی کی جانے والی فہرست)۔ایف اے ٹی ایف نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ پر ایشیا پیسیفک گروپ(اے پی جی) کے سات ایکشن پلان پوائنٹس کو بھی پورا کیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اے پی جی سے موصول ہونے والا 2021 کا حالیہ ایکشن پلان بنیادی طور پر منی لانڈرنگ پر مرکوز تھا اور اس پر عمل درآمد میں سنگین خامیاں پائی گئیںتھیں۔ رپورٹ کے مطابق، ایف اے ٹی ایف نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ مہم کے علاوہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف اچھا کام کیا ہے۔ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے کہا کہ وہ دہشت گردوں اور اقوام متحدہ کے نامزد دہشت گرد گروپوں کے کمانڈروں کے خلاف جلد از جلد دہشت گردی کی مالی معاونت کے معاملات کی تحقیقات کرے۔ پاکستان اب تک چین، ترکی اور ملیشیا جیسے قریبی اتحادیوں کی مدد سے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچتا آیا ہے۔ تاہم گرے لسٹ میں رہنے سے اسلام آباد کے لیے بین اقوامی زر فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک(اے ڈی بی) اور یورپی یونین سے فنڈز حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، جس سے ملک کے معاشی مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
