کابل: افغانستان میں غیر ملکی دہشت گرد گروپوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے سفیر متعین کابل منصور احمد خان نے کہا کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) القاعدہ اور اسی قسم کے کچھ دیگر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، اب نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور خطے کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔
طلوع نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں منصور احمد خان نے کہا کہ افغانستان میں داعش اور القاعدہ کی موجودگی پاکستان اور خطے کے لیے سنگین خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ سینئر پاکستانی سفارت کار نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی حالیہ ڈیورنڈ لائن تنازعہ سے اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ واضح ہو کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن پر تاروں کی باڑ لگانے پر بضد ہے اور اس کی تکمیل کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے جبکہ طالبا قیادت والی افغان حکومت ڈیورنڈ لائن پر مزید باڑ لگانے کے خیال سے متفق نہیں ہے اور اس کی شدت سے مخالفت کر رہی ہے۔ تاہم منصور احمد خان نے کہا کہ باڑ گذشتہ برسوں میں اس وقت لگائی گئی تھی جب افغان پاکستان سرحد پر دہشت گردانہ سرگرمیاں عروج پر تھیں۔
پاکستان کے لیے اس سے نمٹنے کا واحد راستہ باڑ لگانا تھا۔ اب جب کہ نئی حکومت برسراقتدار آچکی ہے اور اس سرحد پر کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں، ہم نئی افغان حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ افہام و تفہیم اور تعاون سے بہتر مفاہمت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امارت اسلامیہ نے ابھی تک ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم وہ افغان سرزمین پر داعش اور القاعدہ سمیت دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کی بارہا تردید کرتا رہا ہے۔
دوسری جانب کابل میں پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کابل کے ساتھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں اپنے تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ منصور احمد خان نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات کی ایک وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام میں ایک دوسرے سے سماجی و تجارتی تعلقات ہیں ۔
