اسلام آباد: طالبان حکومت کو بین الاقوامی شناخت نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان افغانستان کو تکنیکی ، مالی اور ماہرین کی مدد فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ بات بدھ کے روز ایک میڈیا رپورٹ میں کہی گئی۔ڈان اخبار کی خبر کے مطابق ، منگل کو اقتصادی امور کے وزیر عمر ایوب خان کی صدارت میں ایک اجلاس میں نئی افغان انتظامیہ کی حمایت کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ یہ میٹنگ ان اطلاعات کے درمیان ہوئی ہے کہ جنگ زدہ ملک سنگین خوراک کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ لیکن اہم چیلنج یہ ہے کہ افغان حکومت کو دنیا کی جانب سے تسلیم کیے بغیر یہ کیسے کیا جائے۔
افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کے لئے بلائی گئی میٹنگ میں نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے وزیر سید فخر امام ، نیشنل سیکورٹی صلاحکار معید یوسف ، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر ، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔
معتبر ذرائع نے اخبار کو بتایا کہ اجلاس کہا گیا کہ افغان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فوراً بعدبڑی تعداد میں تکنیکی اور مالیاتی ماہرین کے ملک چھوڑ کر چلے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا جائے۔
بڑے اداروں ، خاص طور پر تکنیکی اور مالیاتی اداروں میں ماہرین کی کمی کی وجہ سے بجلی ، طبی اور مالی سہولیات جیسی ضروری خدمات آسانی سے کام نہیں کر رہی ہیں۔ ایوب نے افغانستان میں موجودہ حالات کے حوالے سے دو طرفہ اقتصادی امداد پر زور دیا۔ وزیر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت افغانستان کے لوگوں کو ان کے سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان عوام کی زندگیوں اور معاش کو بچانے کے لیے انسانی بنیادوں پر تکنیکی اور مالی مدد کی فوری ضرورت ہے۔ امام نے کہا کہ 1.4 کروڑ افغان لوگوں کو غذائی بحران کا سامنا کرنے کی خبریں تشویشناک ہیں۔