قادر خان یوسف زئی

منی لانڈرنگ اس وقت مملکت کا سب سے بڑا مسئلہ بھی رہا ہے کیونکہ عوام کے ٹیکسوں سے فلاح و بہبود کے کاموں میں رقم صرف کرنے کے بجائے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کیا جاتا ہے ، جس سے ایک جانب مملکت کے پروگراموں کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسری جانب مفاد عامہ کے کام بھی تیزی سے نہیں کئے جاسکتے ، تاہم منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا نقصان دہشت گردی و انتہا پسند تنظیموں کی فنڈنگ کرنے سے پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ ملا ، یہ ایک ایسا وائٹ کالر جرم ہے جسے بڑی صفائی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کو پکڑنا دقت طلب و قدرے مشکل ہوتا ہے ، میکانکی نظام ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں منی لانڈرنگ کے فروغ کا سبب بنتے ہیں کیونکہ وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جس سے منی لانڈرنگ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، وہ کالے دھن کو ان ممالک کے بنکوں میں محفوظ رکھتا ہے ، اگر ترقی یافتہ ممالک منی لانڈرنگ کے حوالے سے آف شور ٹائپ کے مصنوعی قوانین بنانے سے کالے دھن گروہوں کو قانونی پشت پناہی نہ دیں تو کئی عالمی مسائل ، جن میں دہشت گردی بھی شامل ہے ، انہیں زک پہنچ سکتی ہے۔1980میں ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے خفیہ اور ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی والے ایسے اکاونٹ بنائے ، جس سے خود ترقی یافتہ ممالک کو ٹیکس کی کمی کا سامنا ہوا ، متعدد ممالک نے اس حوالے سے قوانین بنانے شروع کئے ، امریکا نے1986میں اینٹی منی لانڈرنگ قانون بنایا اور پھر1989میں جی ۔سیون ممالک کی ایک نئی تنظیم بنائی جو اب ایف ٹی اے ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کہلاتی ہے ۔اب یہ تقریباََ 39ممالک پر مشتمل گروپ ہے ، پاکستان ایشیا پیسفک گروپ کاممبر ہے، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان نے 2007میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی، جو 2010میں نافذالعمل ہوا ، تاہم ٹیکس قوانین کے جرائم میں منی لانڈرنگ کا قانون لیل و حجت و سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتا رہا۔منی لانڈرنگ کے باعث کئی معاملات خراب تر ہوتے چلے گئے ، بالاآخر2012میں پاکستان پہلی مرتبہ واچ لسٹ میں شامل کردیا گیا ، پاکستان نے منی لانڈرنگ و دہشت گردی کی معاونت کے خطرات کے پیش نظر تیزی سے کاروائیاں کیں ، ٹیکس جرائم سے استثنیٰ قوانین کو ختم اور کئی کمزوریوں کو دور کیا اور مستقل نگرانی کی جانب توجہ دی ۔ان اقدامات کی وجہ سے 2015میں پاکستان کو واچ لسٹ سے نکال دیا ، تاہم تاکید کی گئی کہ عالمی اداروں کی جانب سے دہشت گردی یا اُن سے وابستہ افراد کی سخت نگرانی ، ایسے افراد کے اثاثے ضبط کرنا اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ان جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کے عمل کو موثر رکھا جائے ۔جون2018میں ایف اے ٹی ایف نے جون2018میں پاکستان کا نام ” گرے لسٹ “ میں شامل کردیا اور ایک ایکشن آف پلان پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ، ایران ، شمالی کوریا کی طرح پاکستان کے سر پر بھی بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کے خطرات منڈلانے لگے ، تاہم بھارتی لا بئینگ کے باوجود پاکستان مہلت لینے میں کامیاب ہوگیا ۔

اکتوبر2019میں ایف اے ٹی ایف نے 27نکاتی پلان پر عمل درآمد کے لئے پاکستان کو وقت دے گیا۔ جس پر جنوری 2020میں بریفنگ ہوئی ۔ پاکستان نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ ایف اے ٹی ایف انہیں ایسے نکات پر کام کرنے کی نشان دہی کی ،جس پرپاکستان منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو مالی اعانت فراہم کرنے سے روکنے کے لئے عالمی معیار کے مطابق اس پر عمل درآمد کرسکے ۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی ذیلی تنظیموں کے تعاون سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اپنے خلاف لا بئینگ کو غیر موثر کرنے کے لئے جاندار سفارتی حکمت عملی اپنائی۔پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام کے ساتھ مشکوک افراد پر نگرانی کے نظام و سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کی ،منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے موثر قوانین کا اطلاق شروع کیا اور بتدریج اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی اداروں سمیت تمام اداروں کے درمیان باہمی تعاون کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات شروع کئے، جس میں غیر قانونی منتقلی یا ویلیو ٹرانسفر سروسز ، کیش کوریئرز و دیگر معاملات میں استغاثہ و عدلیہ کی صلاحیت کو بڑھانا بھی شامل ہے ۔پاکستان نے ایسی تنظیموں پر پابندی بھی لگائی جنہیں عالمی اداروں کی جانب سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا ۔ ایسے افراد کے خلاف مملکت نے ایسی کاروائیاں بھی کیں ، جنہیں انتظامی اور ضابطہ فوجداری کے تحت قانون کے مطابق نمٹایا جارہا ہے۔

پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے 12 ووٹ درکار تھے ، جس کے لئے پاکستان نے مختلف ممالک میں سفارتی رابطے کئے ۔ ترکی، چین، سعودی عرب ، ملائیشیا ، خلیجی ممالک نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایف اے ٹی ایف کی دی گئی سفارشات پر مملکت سنجیدگی سے کام کررہی ہے اس لئے دیرپا و مستحکم بنیادوں پر کام کرنے کے لئے وہ پاکستا ن کا ساتھ دیں گے ۔ اس سے پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ایف اے ٹی ایف کی فیصلے سے قبل ہی ٹل گیا تھا ، تاہم گرے لسٹ میں رہنے اور مکمل عمل درآمد تک واچ لسٹ میں رکھنے کے امکانات ظاہر کئے جا رہے تھے ۔کیونکہ پاکستان نے27میں سے14اہداف حاصل کئے ، جو بلیک لسٹ سے نکلنے کے لئے ناکافی سمجھے گئے، اس لئے قدرے بہتر کارکردگی کی وجہ سے مہلت میں توسیع کردی گئی ہے تاہم بلیک لسٹ میں نہ جانا بھی اہم اَمر ہے۔ پاکستانی کے اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف ایک اہم کامیابی ہے ۔ 40برس دہشت گردی سے متاثرہ مملکت میں ایسے عناصر کے خلاف موثر کاروائیوں کی کوشش ریاست کی اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ و طن عزیز میں کسی دہشت گردی کے ٹھکانوں کی کوئی جگہ نہیں اور ایسے عناصر کے خلاف سنجیدہ ہے جو شدت پسندوں کے خلاف مالی اعانت کرکے مملکت کو خطرے میں ڈالتے ہیں ، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ تمام ادارے مستقل مزاجی کے ساتھ ایسے عناصر کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں جو ملک و قوم کی بدنامی و بے امنی کا سبب بنتے ہیں ۔
ا ی میل:qadirkhan.afghan@gmail.com
(مضمون نگار تفتیشی صحافی،سیاسی و انتہاپسندی عالمی امور کے تجزیہ کار، جہان پاکستان گروپ کے ایسوسی ایٹ میگزین ایڈیٹر/کالم نگار/نمائندہ خصوصی ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *