اسلام آباد:(اے یوایس )پاکستان نے دنیا کے کئی ممالک کی طرح برطانیہ کے لیے سفری پابندیاں عائد کر دیں ہیں جہاں خبروں کے مطابق کرونا وائرس کی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لینے والی ایک نئی قسم پھیل رہی ہے۔برطانیہ میں وائرس کی نئی قسم کی خبروں کے بعد لگائی گئی بین الااقوامی پابندیوں کے باعث لوگوں میں خوف اور ابہام پیدا ہو گیا ہے۔
پاکستان کے نیشنل کمانڈ اور آپریشن سینٹر نے برطانیہ سے آنے والے مسافروں پر عارضی پابندی کا فیصلہ کیا۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پابندی 29 دسمبر تک لگائی گئی ہے۔این سی او سی نے اس سلسلے میں پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کونایک مراسلہ بھیج دیا ہے۔ےہ سفری پابندی صرف ان لوگوں پر لاگو ہو گی جو یا تو برطانیہ سے اپنے سفر پر روانہ ہونا چاہتے ہیں یا گزشتہ دس دن سے وہ برطانیہ میں رہ رہے ہیں۔البتہ دوسرے ملکوں کے ٹرانزٹ مسافر جو بذریعہ برطانیہ پاکستان آئیں گے ان پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔قبل ازیں برطانوی سائنس دان ہفتے کو ان کوششوں میں مصروف تھے کہ وہ جان سکیں کہ آیا رواں ماہ برطانیہ میں تیزی سے پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے خلاف حال ہی میں منظور ہونے والی کرونا ویکسین کارآمد ہو گی یا نہیں۔
کرونا وائرس کی نئی قسم جسے ‘وی یو آئی 202012/01’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تشخیص جنوبی برطانیہ کی کاؤنٹی کینٹ میں رواں ماہ 13 دسمبر کو کی گئی تھی اور سائنس دانوں کے ابتدائی اندازوں کے مطابق وی یو آئی پہلے سے موجود کرونا وائرس کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے جمعے کو وی یو آئی کے خدشے کے پیشِ نظر وزرا کا اجلاس رکھا جو کہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔بورس جانسن کا ہفتے کو صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس چیز کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف کار آمد ثابت نہیں ہو گی۔ تاہم ان کے بقول ابھی بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتے۔ان کا کہنا تھا کہ وی یو آئی پہلے سے موجود وائرس کے مقابلے میں 70 گنا تیزی سے پھیل رہا ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین مہم جاری ہے۔ یہ ویکسین امریکی دوا ساز کمپنی ‘فائزر’ اور جرمنی کی بائیو اینڈ ٹیک کمپنی نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔برطانوی وزیرِ اعظم نے لندن اور جنوب مشرقی برطانیہ میں جزوی لاک ڈاو¿ن کے نفاذ کا حکم دیا ہے۔ جس میں لوگوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔سرکاری ہدایات کے مطابق ان علاقوں میں غیر ضروری اشیا کی دکانیں بند کر دی گئی ہیں اور دیگر علاقوں کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ لندن میں داخل نہ ہوں اور لندن کے رہائشی، شہر سے باہر نہ جائیں۔رواں ہفتے کے وسط میں وزیرِ صحت میٹ ہان کوک کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جنوب مشرقی برطانیہ اور لندن میں وی یو آئی کی وجہ سے کرونا وائرس زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہو۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ وی یو آئی حال ہی میں منظور ہونے والی ویکسین کے خلاف مزاحمت کرے۔برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر کرس وٹی کا کہنا تھا کہ انہوں نے عالمی ادارہ صحت کو وی یو آئی کی تیزی سے منتقلی سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔ایک بیان میں کرس کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وی یو آئی کی وجہ سے زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں اور یہ ویکسین کے اثرات کو متاثر کرتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں تحقیق جاری ہے۔وی یوآئی میں کرونا وائرس کے مقابلے میں لگ بھگ 23 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں پروٹین میں اضافہ بھی شامل ہے جو کہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے اور وائرس کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔
چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والے کرونا وائرس میں متعدد تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ جن میں چار ہزار تبدیلیاں صرف پروٹین کے اضافے سے متعلق ہیں۔سائنس دان کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم وی یو آئی دوسرے ممالک میں بھی موجود ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پتا لگانے میں کہ کرونا ویکسین، وی یو آئی کے خلاف بھی کار آمد ہو گی یا نہیں، تحقیق میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔تاہم وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پ±ر امید ہیں کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم ویکسین کی افادیت کو کم نہیں کرے گی۔ جو کہ جسم میں اینٹی باڈیز بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔خیال رہے کہ برطانیہ میں اس وبا سے اب تک 66 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔