ناز اصغر
نئی دہلی: اسلام آباد کا خیال ہے کہ پاکستان طالبان کے دور اقتدار والے افغانستان کی پالیسی پر اثر انداز ہو گا لیکن زیادہ امکان اس امر کا ہے کہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی اور پاکستان مزید طالبانی ہو جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار معروف و ممتاز صحافی ،مصنف ، رکن پرلیمنٹ اور مرکزی وزیر مملکت خارجہ ایم جے اکبر نے انڈیا نیوز اسٹریم کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
اکبر نے اپنے انٹرویو میں، جس کے دوران انہوں نے افغانستان کی حالیہ صورت حال اور ہمسایہ ممالک پر اس کے اثرات کے حوالے سے کیے گئے متعدد سوالات کے جواب دیے، کہا کہ ”اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ طالبان پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں کیونکہ طالبان محض جغرافیائی نہیں ہیں بلکہ ایک نظریہ ہیں۔“ اکبر نے مزید کہا کہ طالبان پاکستان کے پیدا کردہ ہیں اور جن لوگوں نے یہ کھیل کھیلا انہیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ انہیں فغانستان پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔ لیکن اس کا شدید ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔ابھی تک پاکستان کابل پر اثر انداز ہو تا رہا ہے لیکن اب حالات دوسرا رخ اختیار کر سکتے ہیں اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ صورت حال اس کے برعکس ہو سکتی ہے ۔
اکبر کی تازہ ترین تصنیف ’گاندھی کا ہندوازم: دی ا سٹرگل اگینسٹ جناح اسلام‘ میں،جو ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے انہوں نے برصغیر کی تاریخ مرتب کرنے میں دونوں رہنماو¿ں کے متضاد کرداروں کی نشاندہی کی ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ، انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ 1994اور1996کے درمیان امریکہ نے مجاہدین کو آگے بڑھایا اور پاکستان نے طالبان پیدا کیے ۔اگرچہ دونوں کو ہی روس کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن دونوں مختلف طاقتیں تھیں۔ القاعدہ بھی روسیوں کے خلاف لڑا لیکن روسیوں کی واپسی کے بعد تحریک کے دو دھڑوں میںمنقسم ہو گئی ۔ ایک حصہ افغان قوم پرستی کی نمائندگی کرنے لگا تو دوسرا دھڑا القاعدہ ار طالبان ، تحریک طالبان پاکستان ،جیش محمد ۔ لشکر طیبہ کی شکل میں اسلام پسند بنیاد پرستی کی نمائندگی کرنے لگا۔ اور حکومت پاکستان اور اس کی فوج ان تمام تنظیموں کی زبردست حامی و ناصر بن گئیں اور انہیں نہ صرف ہر قسم کی حمایت دے کر ان کی نشوونما کی بلکہ انہیں اپنی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کیں ۔لیکن فرینکین ا سٹائن پاکستان کی راکشش تخلیق نے اپنا اصلی چہرہ دکھانا شروع کر دیا۔
ان کے خیال میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورا وسطی ایشیا بھی اسلام پسند گروپ کی واپسی کے بعد بہت زیادہ پریشان ہورہا ہے۔ اگر طالبان اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ وسطی ایشیا میں گھسنے کی کوشش کریں گے۔ یہ خطہ اب عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے ۔ اس تناظر میں ایران سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اکبر نے ایران کے نظریے کو طالبان سے جدا بتانے کی کوشش کی۔ وہ ایرانی اسلامی حکومت کی اصل اساس قوم پرستی بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران یقینی طور پر خطے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جو کچھ ممالک کے لیے فکر مندی و تشویش کا باعث بنتا ہے لیکن ایرانی اسلام میں القاعدہ اور طالبان کا بین الاقوامی نظریہ نہیں ہے۔
ایران اور نئی طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یقین سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لگتا ہے کہ طالبان اس وقت مفاہمانہ انداز اختیار کر سکتے ہیں لیکن وہ لیکن وہ بڑے منجھے ہوئے اور آزمودہ کار ہیں۔روس کی جانب سے افغانستان میں کسی بھی طالبان مخالف اتحاد کی حمایت کیے جانے پر اکبر نے کہا کہ خطہ میں دلچسپی رکھنے والا ہر ملک انتظار کر نا اور صورت حال پر نظر رکھنا چاہے گا۔ تمام ممالک یہ دیکھیں گے کہ کون سا ملک کیا کر سکتا ہے ،کیا حقیقت پسندانہ ہے اور کیا نہیں۔یہ تمام ممالک کم از کم آئندہ تین مہینے تک انتظار کرنا اور حالات کا جائزہ لیتے رہنا پسند کریں گے۔
جہاں تک معاملہ چین کا ہے تو اکبر کا خیال ہے کہ چین وہی حکمت عملی و ضع کرے گا جو اس نے پاکستان کو مدنظر رکھ کرکی ہے ۔ آخر کار اسے اپنے خود کے قومی مفاد کا بھی خیال رکھنا ہے ۔اس نے تانبے کی کانوں میں کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس وجہ سے وہ جس طرح بلو چستان میں سلامتی چاہتا ہے اسی طرح یہ یقین دہانی بھی چاہتا ہے کہ طالبان سین سیانگ میں اسلام پسندوں کی حمایت نہیں کریں گے ۔
طالبان کی حیرت انگیز طور پر سرعت کے ساتھ فتح حاصل کرنے پر اکبر نے کہا کہ امریکہ کے اچانک ہی ملک چھوڑ کر چلے جانا ہی بلاشبہ اتنی تیزی سے فتح مل جانے کا سبب بنا ہے۔ویسے بھی امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے ہی کافی کم ہو چکی تھی۔ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ طالبان کو امریکہ کی طرف سے انتقامی کارروائی کو خوف بھی دامنگیر تھا جو طالبان کو ستا رہا تھا اور اسی کی وجہ سے تقابلی استحکام یقینی بنتا جا رہا ہے۔
طالبان سوچ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے امریکہ کو للکارا تو وہ اپنی موجودگی میں کئی گنا اضافہ کر دیں گے ۔لیکن جب امریکی طاقت کا خوف دور ہو گیا تو پورا بھرم ہی ٹوٹ گیا۔ایسی بات نہیں کہ طالبان زیادہ طاقتور ہو گئے بلکہ افغانستان کی سرکاری فوج اپنا اعتماد کھو بیٹھی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ رپورٹیں منظر عام پر آرہی ہیں کہ امریکی انٹیلی جنس یہ جائزے پیش کر رہی تھیں کہ اگر ان کی فوجیں واپس بلا لی گئیں تو اشرف غنی حکومت گر جائے گی لیکن امریکہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر غنی حکومت امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد چند مہینے بھی برقرار ہی تو اس کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جائے گا لیکن امریکہ جس طرح افغانستان سے نکلا ہے اس نے بین الاقوامی برادریءکو ناراض کر دیا ۔ یہاں تک کہ خود امریکہ میں اس اقدام کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے۔
اکبر نے کہا کہ امریکہ نے جس انداز سے افغانستان سے فوجوں کو واپس بلایا ہے وہ کھلا دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے یا تو اس کی کوئی پالیسی نہیں ہے یا اس کی پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ جبکہ امریکہ کی بہ نسبت دیگر ممالک نے نہایت مشاقی اور سوجھ بوجھ سے اپنی منتقلی انجام دی۔