Pakistan: nation burning in inflationتصویر سوشل میڈیا

قادر خان یوسف زئی

مہنگائی کا ایک ایسا عفریت ملک پر حاوی ہوتا جارہا ہے جس کے سدباب کی ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی، جس کے سبب عوام کو ریلیف مل سکے۔ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ پیٹرولم مصنوعات میں ہر پندرہ دن بعد اضافہ ہے۔ ایک عام مزدور کی اجرت اس کے گھر کا چولہا جلانے کے لئے بھی ناکافی ہے، اس وقت 102 ڈالر ماہانہ اجرت ہے، اس محدود آمدنی کی وجہ سے پسماندہ طبقہ اشیا ئے ضروریہ کی گرانی کے سبب مسلسل معاشی عذاب کاسامنا کررہا ہے۔ حکومت کی جانب سے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور گرانی میں ملوث مافیاز کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے ثمرات سے عوام ابھی تک محروم ہیں، کیونکہ جہاں عالمی کسازد بازاری کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں تو روپے کی قدر گرنے کے باعث بھی بھاری بوجھ تلے عوام نیچے آچکے ہیں، اس بوجھ کی کمی کے لئے حکومت کی جانب سے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں کسی قدر اضافہ تو کردیا جاتا ہے لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہوتا، لیکن دوسری جانب نجی سیکٹر میں ملازمین کی تنخواہ میں کسی قسم کا کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، غیر محفوظ ملازمت کی وجہ سے متوسط طبقہ بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار رہنے کی وجہ سے، نفسیاتی الجھنوں اور گھریلو مسائل میں الجھ گیا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان چپقلش کی وجہ سے عوا م کے دیرینہ مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں، ان کی توجہ بدقسمتی سے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور پوائنٹ اسکورنگ تک محدود ہے، ان کے پاس موجودہ حالات کے لئے کوئی ایسی مربوط منصوبہ بندی نہیں جس کی وجہ سے عوام سکون کا سانس لے سکیں۔پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے پر پیٹرولیم مصنوعات کے بڑھنے سے براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں اس وقت پیٹرول کی قیمت 123روپے 80 پیسے اور ڈالر 170کی اڑان بھر رہا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ ذرائع نقل وحرکت اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ملازمت پیشہ افراد کے لئے پیٹرولم مصنوعات کے اضافے سے سبزی، گوشت، دالیں، آٹا،چینی، تیل، گھی وغیرہ سب مہنگا ہوجاتا ہے چونکہ اس کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت کا بڑھنا قرار دیا جاتاہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو روکنے کے لئے متبادل ذرائع بھی دستیاب نہیں، عوام اشیا ئ ضروریہ میں خوردنوش کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ انسانی زندگی کی ناگزیز ضرورت ہے،دو وقت کے بجائے ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر نہیں کھا سکتے، دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث غریب طبقہ تو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھنے کے لئے غذائی ضرورت کو پوری کرسکے، بچوں کی تعلیم کے لئے سرکاری اسکولوں کا مناسب معیار نہ ہونے کے باعث متوسط طبقہ اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول میں بھی داخل کراتا ہے تو اس کی فیس آسمان سے چھو رہی ہوتی ہیں، اگر بچوں کی تعداد تین سے زیادہ ہوں تو ان کے پڑھائی کے اخراجات، ٹیوشن اور ٹرانسپورٹ کی فیس ادا کرنے کے لئے گھر کے کفیل کو اپنی خواہشات کا گلہ گھوٹنا پڑتا ہے، کم تنخواہ میں گذارا کرنے کے لئے خوشحال زندگی کا تصور مقفود ہوتا جارہا ہے، نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین دوہرے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، انہیں بغیر اوور ٹائم ملے، طے شدہ وقت سے زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے، ان پر ایسی ذمے داریوں کا بوجھ بھی لاد دیا جاتا ہے، جو ان کی نہیں ہوتی، لیکن ملازمت بچانے یا اچھی ملازمت کی تلاش کرنے تک انہیں گھٹے ہوئے ماحول میں رہنے کی عادت اختیار کرنی پڑتی ہے جس کے باعث ان کا مزاج و اطوار میں نفسیاتی الجھنیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور تلخ مزاجی اور چڑ چڑے پن کی وجہ سے ان کی استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔

ایسے شخص کو معاشرے میں بوکھلاہٹ کا شکارسمجھا جانے لگتا ہے، جس سے ڈیپریشن اور سماجی الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔حکومت کی جانب سے مہنگائی کے جواز کے لئے حیرت انگیز بیانات آنے سے عوام کے زخموں پر مزید نمک پاشی ہوتی ہے، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”پاکستان میں تیل کی قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں، ان کے مطابق کہ جب آپ نے تیل باہر سے خریدنا ہے تو قیمتیں بڑھیں گی، اصل کامیابی ہے کہ پچھتر فیصد آبادی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے“۔ عوام کو یہ فلسفہ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر موازنہ کسی بھی دوسرے ملک سے کرنا مقصود ہے تو پھر ان کی اشیا ئ ضروریہ کا تقابل بھی سامنے رکھا جائے، کہ آیا ا±ن ممالک میں اگر پیٹرولم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان سے کم ہیں تو کیا آٹا،چینی، گھی، تیل، دالیں، گوشت وغیرہ کی قیمت بھی کم ہیں، یہ افسوس ناک امر ہے کہ اس کا تقابل نہیں کیا جاتا ہے کہ ا±ن ممالک میں عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں کئی گنا کم ہیں، ذخیرہ اندوزی اور لوٹ کھسوٹ کے لئے مافیاز کا ایسا کردار بھی نہیں ہے جیسا اب دیکھنے میں آتا ہے۔ حکومت کو توازن برقرار رکھنے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے ان مافیاز کو لگام دینے کی زیادہ ضرورت ہے جو سیاسی چھتری کا استعمال کرکے اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں اور عوام کی معاشی کمر کو توڑ نے میں کوئی کسر نہیں رکھتے، بظاہر لاکھوں روپے گاڑی رکھنے والوں کے لئے چند روپوں کا اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن غریب اور متوسط طبقہ، قیمتوں میں معمولی اضافے سے ہر ا±س اشیا کی قوت خرید سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جو اس کے اور اس کے اہل خانہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے، پھلوں اور غذائیت کی کمی کو پورا کرنے کے اشیائ کی قیمتوں میں اضافے سے نئی نسل میں قوت مدافعت میں کمی اور جسمانی و ذہنی کمزوری کے اثرات نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں، ناتوانی کے باعث ایک ایسی نسل کا دور سامنے آرہا ہے جنہیں غذائی کمی کا سامنا ہوگا اور اشرافیہ انہیں اپنا معاشی غلام بناتے چلے جائیں گے۔

بدترین صورت حال یہ بھی ہے کہ ملک کو خطے میں تبدیل ہوتی صورت حال کے باعث دہشت گردی کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، سلگتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے ظالمانہ سسٹم نے ایک ایسے حصار میں جکڑ لیا ہے کہ عوامی حلقے بے یقینی میں خیال آرائی کرتے ہیں کہ کیا نادیدہ اور مافیاز حکومت پر حاوی تو نہیں، ملکی ڈیمو گرافک تبدیلیوں، اشرافیہ کے شاندار محلات نما عمارات پر مبنی نئی آبادیاں اور ان مکانوں کی بیش بہا قیمتوں کے آرائش کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تین فیصد طبقہ 97 فیصد عوام پر مسلط ہے۔ مہنگائی ملک کا ایک ایسا آتش کدہ ہے جس میں عوام جھلستے جا رہے ہیں، عوام کو مختلف النوع مذہبی، فرقہ وارنہ، لسانی اور قوم پرستی کا ایک ایسا میٹھا زہر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے بھی آواز اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔انسانی زندگی کو بچانے کے لئے جس طرح دہشت گردوں کی تخریب کاری کا سدباب جتنا ضروری ہے، وہیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ تاریخ ساز دورانیہ کب آئے گا جب ان کے مسائل کے حوالے سے درد مندی کا مشاہدہ کرتے ہوئے مثبت اقدامات کئے جائیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے تالیف قلوب اور بحالی کے اقدامات پر توجہ دی جائے، ارباب اختیار مہنگائی کے بڑھتے سونامی کے متبادل اقدامات کی حکمت عملی اپنائے اور سار بوجھ پہلے سے کچلے ہوئے طبقے پر ڈالنے سے گریز کرے۔ مافیاز کے خلاف ایک ایسا آپریشن کیاجائے جو ضرورت بلا امیتاز ایک ایسا نتیجہ خیز اور بے رحم ہو کہ وہ نشانہ عبرت بنیں اور یہ کاروائی قوم کو نظر آئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *