اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جہاں تک چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کاتعلق ہے تو پاکستان یہ دیکھے گا کہ اسکے مفاد میں کیا ہے ۔ اور ہم اسی پر عمل کریں گے جو ہمارے بہترین مفاد میں ہوگا۔
قریشی نے یہ بات امریکہ کی ایک سینیر سفارت کار ایلس ویلز کے ان الزامات پر، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سی پیک پراجکٹوں میں شفافیت نہیں ہے،چین کی جانب سے نہایت سخت بیان جاری کیے جانے کے ایک روز بعد کیا۔ویلز نے سی پیک کے حوالے سے بہت کچھ کہا تھا ۔
انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا پاکستان سی پیک میں اپنی شراکت پر نظر ثانی کرے کیونکہ چینی فنانسنگ کی وجہ سے ہی پاکستان پر قرضہ کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان بھاری قرضے لے رہا ہے اور اسے اندازہ نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس سے اس کی پہلے ہی سے بدحال اقتصادیات پر کاری ضرب لگے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سی پیک پراجکٹوںمیں شفافیت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس میں ان کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے ہیں جنہیں ورلڈ بینک نے بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔
انہوں نے منگل کے روز اسلام آباد میںایک تھنک ٹینک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے چین کے ون بیلٹ ون روڈ پراجکٹ پر تنقید کی۔
ان کے دعوے ان کے انہی خیالات کا اعادہ کرنا جیسے ہیں جن کا اظہار انہوں نے 21نومبر 2019کو واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں اور پھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی کی جانب سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی و سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور روابط گہرے کرنے پر زور دیے جانے کے چند روز بعد دورہ پاکستان کے دوران انہیں دوہرایا تھا۔
ویلز کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دوسرے ہی روز چینی سفارت خانہ واقع پاکستان نے امریکہ کو انتباہ دیاتھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور پاک چین تعلقات اور سی پیک میںٹانگ نہ اڑائے۔