Pakistan too pays tribute to Dilip Kumarتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

میں نے ایسا بہت کم دیکھا ہے کہ ہندوستان کے کسی شہری کے انتقال کا سوگ پاکستان میں بھی ویسی ہی شدت کے ساتھ منایا گیا ہو جیسی شدت کے ساتھ ہندوستان میں منایا گیا۔ اس معاملے میں بھی دلیپ کمار سب سے سے ممتاز ثابت ہوئے۔ حالیہ دنوں میں جب بھی ان کی طبیعت ناساز ہوتی اور انھیں اسپتال میں داخل کرایا جاتا تو پاکستان میں بھی ان کے شیدائیوں اور عقیدت مندوں کی سانسیں اسی طرح تھم جاتیں جیسے کہ ہندوستانیوں کی تھمتی رہی ہیں۔ جب بھی انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا صحافتی حلقوں میں بھی بے چینی بڑھ جاتی تھی۔ اخبارات و رسائل اور ریڈیو اور ٹی وی میں کام کرنے والے صحافی اس ادھیڑ بن میں لگ جاتے کہ خدا نہ کرے کوئی حادثہ ہو جائے لہٰذا پہلے سے تیاری کر لی جائے۔ کیسی تیاری؟ دلیپ کمار کا تعزیت نامہ پیشگی طور پر لکھ کے رکھ لیا جائے۔ خود میرے دفتر وائس آف امریکہ کے اسلام آباد بیورو نے بھی اس کی پیشگی تیاری کر لی تھی اور مجھے بھی یہ ہدایت مل گئی تھی کہ فلاں فلاں خطوط پر ان پر ایک فیچر یا مضمون تیار کر لیں۔ان کے انتقال کے بعد جو بیانات آئے، جو کالم لکھے گئے، جو مضامین قلمبند کیے گئے اور جس انداز میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دلیپ کمار سے اہل پاکستان کی محبت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس نے اپنے یہاں کا اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ”نشان امتیاز“ انھیں تفویض کیا تھا۔

حالانکہ وہ اگر چہ پاکستان کے پشاور میں پیدا ہوئے تھے لیکن تقسیم کے بعد وہ ممبئی ہی میں رہ گئے تھے۔ انھوں نے ہندوستان ہی کو اپنا وطن مانا اور بالی وڈ کو اپنا میدان عمل۔ لیکن وہ صرف بالی وڈ تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ ان کی سرگرمیوں کا دائرہ اس سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کی سماجی، سیاسی، رفاہی، تعلیمی اور فلاحی خدمات بھی قابل ذکر اور قابل قدر ہیں۔ یہ اہل پاکستان کی ایک ہندوستانی شہری سے محبت و عقیدت کا زندہ ثبوت ہے کہ ان کے انتقال پر ہر پاکستانی کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس کے گھر کے کسی فرد کا انتقال ہوا ہے۔ لہٰذا اسی طرح ان کو یاد کیا گیا، ان کی موت کا سوگ منایا گیا اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ اپنی والدہ کی یاد میں کینسر اسپتال کے قیام کے لیے ٹرسٹ قائم کرنے کے موقع پر دلیپ کمار نے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا وہ اسے فراموش نہیں کر سکتے۔ اس وقت پہلے دس فیصد فنڈ کا اکٹھا کرنا بہت مشکل تھا لیکن انھوں نے پاکستان اور لندن میں ایک بڑی رقم اکٹھا کرنے میں ان کی مدد کی۔ وہ کئی نسلوں تک ایک عظیم فنکار و اداکار کی حیثیت سے جانے جاتے رہیں گے۔پاکستانی اخبارات نے خواہ وہ اردو کے ہوں یا انگریزی کے دلیپ کمار کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے اردو روزنامہ ”جنگ“ نے ایک پرانی یاد کے حوالے سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ سلیم اللہ صدیقی نے اپنے مضمون میں لکھا ”طویل عرصے تک فلم نگری پر راج کرنے والے عظیم اداکار98 سالہ یوسف خان المعروف دلیپ کمار کے انتقال کی خبر نے پاکستان میں ان کے مداحوں کو بھی سوگوار کیا ہے۔

کروڑوں پاکستانیوں کے دل میں بسنے والے دلیپ کمار کا روزنامہ جنگ سے ایک قار ی کا رشتہ تھا۔جس کا اعتراف انہوں نے اپنے پہلے دورہ پاکستان کے موقع پر کیا۔ 16اپریل1988 کو جنگ کراچی کا دورہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستان میں جو محبت ملی وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے لاہور میں بھی جنگ کے دفاتر دیکھنے کا موقع ملا۔جنگ کی طباعت کتابت بہت ہی جاذب ہوتی ہے۔مضامین بھی بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔مجھے کیونکہ اپنے گھر میں جنگ باقاعدگی سے ملتا ہے اور اس کے ذریعے کرکٹ او ر ہاکی کے کھیلوں سے آگاہی ہوتی ہے،اندرون ملک ہونے والے ٹورنامنٹس کی خبریں اور کھلاڑیوں اور منتظمین کی کھینچاتانی کی خبریں بھی بہت دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اخبار جنگ نہ صرف پاکستان میں شہرت رکھتا ہے بلکہ بھارت میں بھی اردو پڑھنے والوں میں بہت مقبول ہے۔اکثر ایسا ہوا کہ جنگ ایک دو روز میری میز پر رہا پھر کہیں نہ کہیں غائب ہوجاتا ہے۔ میں نے سنا ہے محلے میں تقسیم ہوتا ہے۔اس موقع پر انہوں نے جنگ کے مختلف شعبوں کا معائنہ بھی کیا تھا اور کمپیوٹر کمپیوزنگ کی تعریف کی تھی۔انہوں نے شعبہ کمپیوٹر کے لیے ایک پیغام بھی دیا تھا کہ دلیپ کمار ادارہ جنگ کے اراکین کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے“۔ روزنامہ پاکستان نے سرخی لگائی ”دلوں پر راج کرنے والا رخصت ہو گیا“۔ اخبار کے مطابق ”دلیپ کمار کو پاکستان سے خصوصی محبت تھی۔ وہ اسے اپنا اصل گھر کہتے تھے۔ انھوں نے پشاور کا دورہ کیا اور اپنا آبائی گھر بھی دیکھا جسے اب تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔

انھیں پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز دیا گیا۔ انھوں نے عمران خان سے مل کر شوکت خانم کینسر اسپتال کی چندہ مہم میں بھی حصہ لیا۔ وہ اداکار سے زیادہ ایک ایسی شخصیت تھے جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔ انھوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ بالی وڈ کی فلم انڈسٹری انھیں سو سال تک بھی نہیں بھلا پائے گی۔ ہر نیا اداکار انھیں آئیڈیل بنا کر انڈرسٹری میں قدم رکھے گا“۔ اس اخبار نے دوسرے روز اپنے خراج عقیدت میں لکھا کہ یوسف خان مرتے وقت بھی یوسف خان ہی تھے۔ ان کی نماز جنازہ کے بعد تدفین ہوئی۔ دلیپ کمار شو بز میں رہ گیا اور یوسف خان اللہ کے حضور حاضر ہو گیا۔ یوسف خان کا موازنہ ہمارے اپنے اداکار محمد علی سے یا محمد علی کا ان کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ محمد علی بھی بڑے فنکار تھے۔ لیکن جو بات دلیپ صاحب میں تھی وہ ان میں کہاں؟

جبکہ اخبار جنگ کے معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں ”دلیپ کمار کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا ممکن نہیں جو اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو سوائے اس بات کے کہ وہ بہت بڑے اداکار تو تھے مگر یہ کہنا کہ ان سے بڑا کوئی اداکار آج تک برصغیر میں پیدا نہیں ہوا، شاید مبالغہ آرائی ہو۔ کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ دلیپ کمار کو جتنا عظیم اداکار کہا جاتا ہے اتنی غیر معمولی بات ان میں نہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ بہت اعلیٰ پائے کے اداکار ہیں مگر جس طرح انہیں صدی کا سب سے بڑا اداکار کہا جاتا ہے وہ کچھ زیادتی ہے۔ سچی بات ہے کہ میری رائے لا علمی کی بنیاد پر تھی۔ میں نے اپنے لڑکپن میں دلیپ کمار کی جو پہلی فلم دیکھی وہ ”کرما‘ ‘ تھی اور اسی سے میرے دماغ میں دلیپ کمار کا ایک تاثر بن گیا جو آنے والے کئی برسوں تک قائم رہا۔ حالانکہ کرما نہ ان کی نمائندہ فلم تھی اور نہ ہی اس میں دلیپ صاحب اپنے جوبن پر تھے۔ کسی بھی اداکار ، آرٹسٹ یا لکھاری کو اس کے بہترین کام سے پرکھا جاتا ہے۔ دلیپ کمار کو چالیس کی دہائی میں عروج ملا اور ساٹھ کی دہائی تک وہ بلا شرکت غیرے برصغیر میں اداکاری کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔یہ وہ دور تھا جب لوگوں کی تفریح کے دو ذرائع تھے ریڈیو اور فلم۔

ٹی وی ابھی نہیں آیا تھا۔ ریڈیو پر ہفتے میں ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جسے لوگ بہت شوق سے سنا کرتے تھے اور چونکہ ریڈیو ڈرامے میں اداکاری کو جانچنے کا واحد ذریعہ آواز تھی اس لیے لوگ اداکار کی آواز کے زیر و بم اور لہجے کے اتار چڑھاو کی بنیاد پر ہی اس کے اچھے برے ہونے کا فیصلہ کرتے تھے۔ دلیپ کمار کی فلمیں جب اس زمانے میں لگیں تو لوگ ان کی اداکار ی کے دیوانے ہو گئے اور اس کی بنیادی وجہ دلیپ کمار کی آواز کا اتار چڑھاو تھا۔ وہ دھیمے لہجے میں مکالمے بولتے اور ہر ڈائیلاگ کی ادائیگی میں ایک قدرتی پن جھلکتا۔ لوگ چونکہ ریڈیو کے ڈرامے سن کر محض اداکار کی آواز سے اس کے فن کو پرکھ لیتے تھے سو بہت جلد دلیپ کمار کی بھی اس اچھوتی خصوصیت نے انہیں اپنے ہمعصر اداکاروں سے ممتا ز کر دیا۔ جس روانی ، سادگی اور قدرتی انداز میں دلیپ کمار مکالمے بولتے تھے وہ مسحور کن تھا“۔انڈیپنڈنٹ میں فاروق اعظم لکھتے ہیں ”بمبئی کی فلم نگری میں اس وقت راج کپور اور نرگس کے رومانوی تعلقات کی دھوم مچی تھی۔ برسات اور انداز میں دونوں کے انداز پس پردہ محبت کی برسات کا پتہ دیتے تھے۔ لیکن 1951کی فلم ترانہ سے بھارت میں رومانس کے نئے دور کی بنا پڑی۔ روشن خد و خال کے دیوتا دلیپ کمار اور حسن کی دیوی مدھوبالا نے جیسے چھلکتا ہوا رومانس پردے پر اتارا اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

انل بسواس کی مدھر دھنیں اور ڈی این مدھوک کے دلفریب مکالمے پوری فضا کو مسحور کن بنا دیتے ہیں۔دیوداس (1955) میں بمل رائے کی ہدایت کاری اور دلیپ کمار کی اداکاری کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ لیکن باکس آفس پر فلم ناکام ہو گئی۔ تاہم دیوداس سے دلیپ کمار ٹریجڈی کنگ بنے۔ تین سال بعد دلیپ کمار اور بمل رائے کی مدھومتی(1958) ریلیز ہوئی تو اس نے صرف دل ہی نہیں فلم فیئر ایوارڈز بھی جیتے۔ بی آر چوپڑا کی نیا دور، یو ایس سنی کی کوہ نور اس دہائی کی دیگر دو اہم فلمیں ہیں۔ 50 کی دہائی کو دلیپ کمار کے فن کا نقطہ عروج کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دیوداس کا دیو بابو، مغل اعظم کا شہزادہ سلیم 1961 کی فلم گنگا جمنا میں ایک اینٹی ہیرو کے کردار میں فن کی نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ اپنی لکھی کہانی دلیپ کمار پردے پر ایسے بسر کرتے ہیں جیسے واقعی زندگی انہی جنگلوں میں ڈکیتیاں کرتے بتائی ہو۔ پشاور کا پٹھان اتر پردیش کا لہجہ اس اعتماد اور روانی سے بولتا ہے جیسے بچپن انہی گلیوں کی خاک چھانتے گزرا ہو۔ایک دن بمبئی کے اخبار فروش چیخ چیخ کر اعلان کر رہے تھے کہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن ایک ساتھ ایک فلم میں۔ پرانی نسل دلیپ کمار کو دیوتا کہتی تو نئی نسل کا خون کھولنے لگتا اور جواب دیتی ”لمبو کچا کھا جائے گا“۔گنگا جمنا کا باغی اب ایک ایماندار پولیس افسر تھا اور شعلے کا جے قانون شکن بیٹا۔

شکتی میں دونوں اداکاروں نے زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ سنیما سے نکلتے ہوئے کچا کھا جانے والی نسل کا لہجہ بدلا ہوتا۔ دیوتا کے پرستاروں کا سینہ مزید چوڑا ہو گیا۔بالی وڈ میں دلیپ کمار پہلے اداکار تھے جنہوں نے مکالمے کی ادائیگی اور صوتی زیر و بم کو فن کا درجہ دیا۔ بالخصوص المیہ کرداروں میں ان کی آواز دکھ کی شدت سے ایسی بھیگی ہوتی کہ ناظرین اپنی سماعتوں میں اس کی نمی محسوس کرنے لگتے۔ اگر پردے پر تصویر گردش نہ بھی کر رہی ہو تو دلیپ کمار کی آواز کی مدد سے ہوبہو تصویر تشکیل دی جا سکتی ہے۔ دیوداس کے بعد ہر نوجوان اسی لہجے میں بات کرتا۔ ہر شخص کو دیوداس میں اپنا عکس نظر آتا۔دلیپ صاحب کی آنکھیں آج ہمیشہ کے لیے بند ضرور ہو گئیں لیکن ان کے لب و لہجے کی جھلک ہر دور کے نئے اداکاروں میں نظر آتی رہے گی۔ دلیپ کمار کے سحر سے بچ کے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے“۔ایکسپریس نیوز میں معروف کالم نگار جاوید چودھری دلیپ کمار کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”ناظم جیوا کا تعلق کراچی سے تھا۔پاکستان میں 70 کی دہائی میں تھیلیسیمیا کا مرض بڑھنے لگا تو جیوا صاحب نے فاطمید فاﺅنڈیشن کے نام سے این جی او بنائی اور تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے لیے خون جمع کرنا شروع کر دیا۔ فاﺅنڈیشن آہستہ آہستہ پھیل گئی۔ یہ کاروبار کے سلسلے میں بھارت جاتے رہتے تھے۔

دلیپ کمار مرحوم کے ساتھ ان کا رابطہ تھا۔ یہ 1987 میں ممبئی میں دلیپ صاحب سے ملے اور انھیں پشاور میں فاطمید کے سینٹرکے افتتاح کی دعوت دے دی۔دلیپ صاحب مان گئے اور یہ اپریل 1988 میں پہلی بار پاکستان تشریف لے آئے۔ میاں نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ میاں شریف اور نواز شریف دونوں دلیپ صاحب سے ملے اور یوں شریف فیملی کا دلیپ صاحب سے رابطہ استوار ہو گیا۔ دلیپ صاحب دوسری بار1992میں شوکت خانم اسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے پاکستان آئے۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔ ا ٹل بہاری واجپئی نے1998 کی آخری سہ ماہی میں بیک ڈور ڈپلومیسی کے لیے اپنے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا اور میاں نواز شریف نے نیاز اے نائیک کو نامزد کر دیا اور دونوں کے درمیان ڈائیلاگ شروع ہوئے۔ پاکستان نے اس دوران دلیپ کمار کو نشان امتیاز دینے کا اعلان کر دیا۔ دلیپ کمار نے واجپئی سے مشورہ کیا اور ان کی اجازت سے نشان امتیاز لینے کے لیے پاکستان آئے۔ یہ ان کا پاکستان کا تیسرا دورہ تھا۔ دلیپ کمار کی شروعات کے نتیجے میں اٹل بہاری واجپائی 20 فروری 1999 کو بس پر لاہور آئے۔ مینار پاکستان کے نیچے کھڑے ہو کر نظریہ پاکستان کی تائید کی اور خطے میں نئے تعلقات کی بنیاد رکھ دی۔ لیکن بدقسمتی سے ڈائیلاگ شروع ہونے کے اڑھائی ماہ بعد کارگل کا واقعہ پیش آ گیا اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

کارگل وار کے اسٹارٹ میں وزیراعظم واجپئی نے میاں نواز شریف کو فون کیا اور ناراض لہجے میں کہا ”میاں جی (واجپئی میاں نواز شریف کو ہمیشہ میاں جی کہتے تھے) میں کھلے دل کے ساتھ آپ کے پاس آیا تھا لیکن آپ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ لیکن بقول میاں نواز شریف وہ خود وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک کارگل کی صورت حال سے نا واقف تھے۔ بہرحال قصہ مختصر کارگل ہوا۔بارہ اکتوبر کو مارشل لا لگا اور دلیپ کمار ڈپلومیسی ختم ہو گئی۔یہ دلیپ کمار کی زندگی کا ایک خفیہ پہلو تھامیں چاہتا ہوں ان کے انتقال پر ان کی شخصیت کا یہ سفارتی پہلو بھی رجسٹرڈ ہو جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *