ہندوستان کے نہایت مطلوب مفرور اور متنازعہ اسلامی مبلغ ذاکر نائک کو مسلسل خلیجی ممالک سے مالی اعانت مل رہی ہے۔ ہندوستانی ایجنسیاں منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز اور منافرت پھیلانے والی تقاریر کرنے کے الزام میں نائک کے تعاقب میںہیں۔ وہ ہندوستان چھوڑنے کے بعد سے ہی ملیشیا میں مقیم ہیں اور ہندوستان کی زبردست کوششوں کے باوجود ملیشیا نائک کو ہندوستان کے قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں کے حوالے کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔
ان حالات سے واقف ذرائع نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں ذاکر نائک نے قطر میں اپنے پرانے رابطوں میں سے ایک سے رابطہ کیا تھا اور اپنی فلاحی تنظیموں کے لئے5لاکھ ڈالر رقم کی درخواست کی تھی۔ پاکستان بھی ذاکر نائک کو فنڈ فراہم کرنے کے لئے ترکی اور قطر جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا استعما ل کررہا ہے۔ واضح رہے کہ قطر اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں جنہیں وہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں میں قطر اور ترکی کے مابین تعلقات کافی مستحکم ہوئے ہیں اور ترکی اپنے ہند مخالف موقف اختیار کرنے کے لئے قطر پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کررہا ہے۔جب سے ترکی نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی وکالت اور کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے تبھی سے ترکی کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد سے ترکی مختلف بین الاقوامی فورموں پر مسئلہ کشمیر کو اٹھا رہا ہے۔
گذشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی منظور کردہ قراردادوں کے باوجود کشمیر ابھی تک محاصرے میں ہے اور 8 ملین افراد کشمیر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ گھروں سے نہیں نکل سکتے۔ ان حالات سے واقف تجزیہ کاروں نے کہا کہ ملیشیا پاکستان کے کہنے پر ذاکر نائک اپنے یہاں مہمان کے طور پر رکھے ہوئے ہے۔ اب پاکستان قطر اور ترکی جیسے ممالک کے توسط سے ذاکر نائک کے لئے کثیر رقم کا انتظام کرنے میں مصروف ہے۔
نائک نے ایسی رقم کے حصول کے لئے جن قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک میں متعدد بینکوں میں کھاتے کھولے ہوئے ہیں ۔ ذاکر نائیک نے یہ کھاتے ہندوستانی حکومت کی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے کھولے ہیں۔ وہ عام طور پر ان ان کھاتوں کو اپنے ساتھیوں اور اسلامک ریسرچ فاو¿نڈیشن(آئی آر ایف)اور دیگر وابستہ تنظیموں کی سرگرمیوں کے لئے سرگرم عمل نیٹ ورک کو فنڈ منتقل کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اس کا علم ہونے کے بعد ہندوستانی حکومت نے آئی آر ایف پر پانچ سال کی پابندی عائد کردی ۔یہ دیکھا گیا ہے کہ ترکی ہند مخالف سرگرمیوں کا اصل مرکز بن گیا ہے۔ اور اس نے قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کے مابین تنازعہ کا فائدہ اٹھا تے ہوئے قطر میں فوجی دستے تعینات کر کے اپنااثر و رسوخ کافی بڑھا لیاہے۔ترکی نے قطر میں اپنے فوجی اڈے کو اور بھی وسیع کرلیا ہے ۔
گذشتہ سال سعودی عرب کے انگریزی روزنامہ عرب نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جون 2017 میں سعودی عرب کی زیرقیادت قطر کی ناکہ بندی کے بعد سے ترکی اور قطری فوجوں کے درمیان باہمی دفاعی و عسکری تعاون بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ بہت سارے قطریوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کا مشتررکہ اقدام قطر کی خودمختاری و اقتدار اعلیٰ کے خلاف بغاوت کی کوشش ہے۔ ترکی پہلا ملک تھا جس نے خلیج کے ایک چھوٹے سے ملک قطر کو درپیش دشوار اور مشکل وقت میں نہ صرف حمایت کی بلکہ اس چھوٹے سے ملک کا کھل کر ساتھ دیا ۔