اسلام آباد: پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان امورآصف درانی نے افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار فریدون سینیرلی اوغلو سے امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔ درانی نے ٹویٹر کے توسط سے مطلع کیا کہ فریدون سینیرلی سے دوران گفتگو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا، تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہوں، خواتین کے حقوق، بینکنگ پابندیاں، منجمد اکاو¿نٹس اور انسانی بحران نمایاں طور پر زیر بحث رہے۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھرنے اقوام متحدہ کے رابطہ کار خصوصی کے ساتھ ایک علیحدہ ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی کوششوں کا مقصد افغانوں کے لیے پائیدار اقتصادی راہیں کھولی جائیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ٹویٹ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی کوششوں کا مقصد عام افغانوں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے پائیدار اقتصادی راہیں پیدا کرنا ہونا چاہئے۔اپنے ٹوئیٹ میں انہوں نے اس ضمن میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرنے کے پاکستان کے عہد کو بھی دوہرایا۔طالبان کے سرکاری ترجمان اعلیٰ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ کے ساتھ سیاسی تال میل و تعاون کو فروغ دیا جائے جو سبھی کے حق میں مفید ہوگا۔اور تمام دیگرممالک کو اس سلسلہ میں پیش رفت کرنی چاہئے۔
مجاہد نے مزید کہا کہ تمام ممالک کو ہماری نصیحت ہے کہ اسلامی امارات سے سیاسی رابطہ بڑھایا جائے اوراپنے مطالبات اسلامی امارات کو تسلیم کرنے کی روشنی میں رکھیں جو کہ فائدہ مند بھی ہو گا۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنے کا مسئلہ اس وقت تک طے نہیں پایا جائے گا جب تک کہ دنیا کے مطالبات پورے نہ کر دیے جائیں۔ ایک سیاسی تجزیہ کار نجیب اللہ شمل نے کہا کہ درحقیقت بین الاقوامی برادری کے مطالبات بھی افغان عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہیں اور ان کو تسلیم کر لینے سے امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک اور سیاسی تجزیہ کار سید بلال احمد فاطمی نے کہا کہ پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلے اور اس ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے اور اس ملک کی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا احترام کرے۔