لندن:(اے یو ایس)، برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن اور لیبر پارٹی کے رہنما نذیر احمد کو1970 کی دہائی میں دو بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے جرم میں ساڑھے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔64 سالہ نذیر احمد کو، جنہوں نے ہاؤس آف لارڈز کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا، شیفیلڈ کراو¿ن کورٹ نے جنوری کے اوائل میں گیارہ سال کے ایک لڑکے اور ایک لڑکی کے ساتھ دو مرتبہ زیادتی کی کوشش کے الزام میں قصور وار پایا تھا۔ جب یہ جرائم سر زد ہوئے، نذیر احمد کی اپنی عمر 18 سال سے کم تھی۔اخبار گارڈین نے جسٹس لیونڈر کے الفاظ کو اس طرح بیان کیا ہے جب وہ نذیر احمد سے مخاطب تھے۔”آپ کے عمل نے (متاثرہ) لڑکی اور لڑکے پر گہرے اور زندگی بھر کے لیے اثرات مرتب کیے ہیں اور انہوں نے ان اثرات کے ساتھ 46 سے 53 سال گزارے ہیں“۔
جنسی زیادتی کی کوشش کا سامنا کرنے والی خاتون نے جو جرم کے سرزد ہونے کے وقت کمسنی کے دور میں تھیں، اپنا بیان عدالت میں خود پڑھ کر سنایا۔گارڈین کے مطابق انہوں نے کہا کہ” میرے بچپن سے لے کر جوانی تک، رسوا کیے جانے کا ایک احساس ہمیشہ میرے ساتھ موجود رہا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جس احساس کا بوجھ میرے اوپر سوار رہا ہے اور جس نے مجھے کئی سال خاموش رکھا ہے، اس بوجھ کو اس پر منتقل کر دوں لیکن بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے جس شخص کو میں جانتی ہوں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو گی “۔نذیر احمد کے دو بھائیوں 71 سالہ محمد فاروق اور 66 سالہ محمد طارق پر بھی اسی لڑکے پرجنسی حملے کا الزام تھا۔ دونوں بھائیوں کے بارے میں بھی جیوری اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ اس اقدام کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تاہم مقدمے سامنا کرنے کے لیے ان کو اہل خیال نہیں کیا گیا۔جنسی حملے کا سامنا کرنے والے شخص کی جانب سے بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بچپن میں پیش آنے والے اس واقعے نے مجھے روزانہ بنیادوں پر متاثر کیا ہے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے اظہار میں قاصر رہے۔
گارڈین نے اس طرح ان کے بیان کا حوالہ دیا ہے:” میں نے جرم کو دفن کیا اور کئی سال اس کا بوجھ لے کر چلتا رہا۔ ان تین مردوں نے جو میرے ساتھ کیا میں اس پر شرم محسوس کرتا رہا۔ یہ انتقام نہیں ہے، یہ انصاف کے بارے میں ہے“۔جج لیونڈر نے، ذرائع ابلاغ کے مطابق، کہا کہ نذیر احمد کو لڑکے کے ساتھ زیادتی کے جرم میں ساڑھے تین سال جب کہ لڑکی پر دو مرتبہ جنسی حملے کی کوشش میں دو سال قید کی سزا دی گئی ہے۔لارڈ کے لقب سے محروم ہونے والے نذیر احمد نے نومبر 2020 میں ہاو¿س آف لارڈز سے اس وقت استعفی دے دیا تھا جب ہاؤس کی کنڈکٹ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ نذیر احمد سال 2017 میں ایک 43 سالہ پاکستانی نژااد برطانوی خاتون سے جنسی اور جذباتی استحصال کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اور ان کے رویے کو بد کاری قرار دیا گیا تھا۔یہ انکوائری اس کے بعد ہوئی تھی جب بی بی سی نے لارڈ نذیر احمد سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی۔
اگر لارڈ نذیر اس وقت مستعفی نہ ہوتے تو، رائج طریقہ کار کے مطابق، ہاؤس کی کنڈکٹ کمیٹی کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے ان کو ہاؤس سے نکال دیا جانا تھا اور ہاؤس آف لارڈز کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوتا کہ کسی رکن کو اس طرح کے رویے کے سبب ہاؤس کی رکنیت سے محروم کیا جاتا۔نذیر احمد کو لیبر پارٹی کے لیے طویل عرصہ کام کرنے پر سال 2019 میں ہاؤس آف لارڈز کا رکن بنایا تھا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے مسلمان رکن تھے۔ اس سے قبل 1998 میں ان کو وزیراعظم ٹونی بلئیر کی سفارش پر رکن تاحیات بنایا گیا تھا ۔جنسی زیادتی کے مقدمے میں سزا کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے پوسٹیں شیئر کی جا رہی ہیں۔ بعض صارفین کے مطابق دیر سے سہی مگر انصاف ہو گیا اور ایک مجرم اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ 50 سال قبل کم عمری میں ہونے والے اقدام پر سزا کا مقصد ان کو بین الاقوامی مسائل پر بولنے سے روکنا تھا۔
