Pakistani police widen manhunt a day after priest's killingتصویر سوشل میڈیا

پشاور:(اے یو ایس)خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقے رنگ روڈ پر چمکنی پولیس تھانے کے حدود میں اتوار کے روز مسیحی مذہبی رہنما ولیم سراج کے قتل کے بعد حکام نے سیکورٹی کی صورتحال کو سخت کر تے ہوئے بعض پولیس عہدیداروں کو بھی انکے عہدوں سے ہٹادیا ۔پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے اور نہ کسی فرد یا گروہ نے اس واقع کی زمہ داری قبول کی ھے۔پولیس کا کہنا ہے کہ پشاور میں اتوار کو تین مسیحی افراد پر حملے کے واقعے کی ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کر لی گئی ہے، تاہم تاحال کسی دہشت گرد تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، جس میں ایک پادری کی موت ہوئی۔

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سربراہ ڈی آئی جی جاوید اقبال نے پیر کو ذرائع ابلاغ کو بتایا ھے کہ تاحال قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ واقعہ دہشت گردی کا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں داعش خراساں ملوث ہو۔ان کا کہنا تھا: ’خیبر پختونخوا میں پچھلے پانچ چھ ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کے تقریباً 80 فیصد حملوں میں داعش کا ہاتھ رہا ہے۔ پچھلے سال اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ستنام سنگھ کے قتل میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی۔‘چمکنی تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق ہزار خوانی میں واقع شہیدان آل سینٹس چرچ کے پاسٹر ولیم سراج، پاسٹر پیٹرک نعیم اور عنایت کو اتوار کو اس وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ عبادت ختم کرکے ایک گاڑی میں ڈیڑھ بجے کے قریب چرچ سے نکلے۔تھانہ چمکنی کے نائب محرر معراج گل نے بتایا ھے کہ حملے میں زخمی ہونے والے پادری پیٹرک نعیم کی مدعیت میں مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 324،34،427 اور انسداد دہشت گردی قانون کے سیکشن سات کے تحت درج کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں پادری پیٹرک نعیم نے کہا کہ ’وہ چرچ میں عبادت کے بعد پادری ولیم سراج اور عنایت کے ہمراہ جا رہے تھے اور پادری ولیم سراج ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھے۔ جیسے ہی ان کی گاڑی ایک پیٹرول پمپ کے قریب پہنچی تو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔‘انہوں نے بتایا: ’دونوں مسلح افراد میں سے ایک نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا، جب کہ دوسرے نے چادر اوڑھی تھی اور اس کا نحیف بدن کا تھا۔‘انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ولیم سراج کے سر اور جسم کے دوسرے حصوں میں گولیاں لگیں اور انہیں 1122 کی مدد سے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ راستے میں دم توڑ گئے۔اس حملے میں پیٹرک معمولی زخمی ہوئے جبکہ عنایت جو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے، محفوظ رہے۔جائے وقوعہ صوبائی اسمبلی سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں جابجا سرکاری عمارتیں، دکانیں اور پلازے بنے ہوئے ہیں اور جہاں ہر وقت لوگوں کا کافی رش رہتا ہے۔

واقعے کے فوراً بعد چرچ آف پاکستان کے بشپ سرفراز پیٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تمام مسیحی متحد اور کمر بستہ ہیں۔ان کا کہنا تھا: ’تینوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ عبادت کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر کے لیے نکل رہے تھے۔ اس دوران دہشت گرد پہلے سے تاک میں بیٹھے تھے تاکہ جیسے ہی وہ نکلیں تو انہیں قتل کر سکیں۔‘گذشتہ روز پشاور پولیس نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر تعینات کرکے علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا اور دکانوں پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی حاصل کیا۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری کو ملزمان کی فوری گرفتاری اور ضروری کارروائی عمل میں لانے کی ہدایات کیں جبکہ ڈپٹی کمشنر پشاور خالد محمود، کمشنر پشاور ڈویڑن ریاض محسود اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر عادل وسیم مقتول مسیحی پادری کے گھر گئے اور لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ولیم سراج کے رشتہ دار اور سینٹ جانز کیتھڈرل کے پادری جوزف جان نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ان کی عمر 60 سال سے زائد تھی اور ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں، جو دونوں شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔انہوں نے بتایا: ’ولیم کے داماد 2013 میں پشاور کے چرچ دھماکوں میں شہید ہوئے تھے اور ان کے تین بچے بھی ولیم کی کفالت میں تھے۔ ان کی اہلیہ حیات ہیں، لیکن زیادہ تر بیمار رہتی ہیں۔پشاور کے رنگ روڈ پر تین مسیحی مذھبی رھنماووں پر ھوے والا پہلا حملہ نہیں ھے اس سے قبل بھی اسی غیر مسلم اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اور عادتگاھوں کو دھشتگردوں نے نشانہ بنایا ھے۔اں حملوں میں ستمبر 2013 میں پشاور کے کوہاٹی گیٹ کے علاقے میں آل سینٹس چرچ پر دہشت گردوں کا حملہ انتہائی خوفناک تھا۔چرچ پر ھوے والے دو مبینہ خودکش بم دھماکوں میں پاسڑ ولیم سراج کے داماد سمیت 127 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جنداللہ نے قبول کی تھی۔یاد رہے کہ 2013 میں پشاورکے کوہاٹی گیٹ کے دھماکوں میں 127 افراد کے ہلاک ہونے کے حق علاہ۔ تقریبا ڈھائی سو افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے مذھبی امور مولانا طاھر اشرفی نے سوموار کے روز پشاور جا کر مقتول پادری کےقتل پر مسیحی برادری کے ساتھ اظہار ھمدردی کی۔ اس موقع پر مولانا طاھر اشرفی نے مقامی چرچ میں ساتھیوں سمیت نماز ظہر بھی ادا کی اور اسکی سوشل میڈیا کے ویب سائٹس پر تشہیر بھی کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *