Pakistani politicians and Cynthia de Ritchie's allegationsتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

آجکل پاکستانی سیاست میں ایک طوفان آیا ہوا ہے۔ یہ طوفان کسی پاکستانی شہری کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک امریکی حسینہ کے الزامات یا انکشافات کی وجہ سے آیا ہوا ہے۔ امریکی حسینہ کا نام سنتھیا ڈی رچی ہے اور انھوں نے موجودہ سنیٹر اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک پر ریپ کا اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پر جنسی دست درازی کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق جب وہ ویزا کے سلسلے میں رحمان ملک کے گھر گئیں تو انھیں مشروب پلا کر بےہوش کر کے ان کا ریپ کیا گیا۔ جبکہ دست درازی کا مبینہ واقعہ ایوان صدر میں پیش آیا جہاں بقول ان کے یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔اس سے قبل انھوں نے ٹوئٹر پر پیپلزپارٹی کے رہنما اور سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کی مبینہ طور پر کچھ ذاتی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان پر متعدد خواتین سے تعلقات کا الزام لگایا تھا۔ جبکہ وہ پہلے بختاور بھٹو، پھر بے نظیر بھٹو، اس کے بعد مرتضیٰ وہاب اور سید مراد علی شاہ پر بھی الزامات عائد کر چکی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری پر مردوں سے اور ان کی والدہ بے نظیر بھٹو پر نامحرموں سے تعلقات کا بھی الزام لگا چکی ہیں۔ حالانکہ رحمن ملک ، یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ لیکن بہر حال اس معاملے پر ایک ہنگامہ برپا ہے اور ان کے خلاف دو سو سے زائد مقامات پر ایف آئی آر درج کروائی جا چکی ہیں۔

ویسے بہت سے لوگ ان کے الزامات میں جھول بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس بارے میں کئی سوالات کر رہے ہیں جن کے جواب سنتھیا رچی کو دینا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو بتانا چاہیے کہ ان جیسی دبنگ خاتون تقریبا دس سال خاموش کیوں رہیں؟ کیا رحمان ملک بطور وزیر داخلہ اتنے طاقتور تھے کہ اس قبیح جرم کے مبینہ ارتکاب کے بعد وہ امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کو بھی منہ بند کرنے پر مجبور کر پائے؟ اگر امریکی سفارت خانے کے پاس معلومات تھیں تو کیا انہوں نے وزارت خارجہ کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا؟ رحمان ملک کے ساتھ نشست تو ویزے کے لیے تھی لیکن مخدوم شہاب الدین اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کا جواز کیا تھا؟ اس کی وضاحت ویسے یوسف رضا گیلانی کو بھی کرنی چاہیے کہ کہ کیا اس طرح کی شخصیات کی ان تک رسائی تھی؟ سوال کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہمارے ادارے سنتھیا اور ان کی پاکستان میں موجودگی اور اثر رسوخ کے بارے معلومات فراہم کر پائیں تو آسانی سے معاملہ سمجھ میں آ جائے گا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں مقیم یہ امریکی شہری جو لاہور میں چھوٹی موٹی این جی اوز کے ساتھ منسلک ہو کر ان کو بڑے بڑے پراجیکٹ دلوانے کی اہلیت رکھتی تھیں اتنی بااثر ہو گئیں کہ ہر بڑے ملکی معاملے میں اپنی آواز شامل کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں؟ ان کی معلومات تک رسائی حیران کن ہے۔ سیاست دانوں کی نجی محفلوں کی تصاویر سے لے کر پاکستان کے دفاعی معاملات پر ایک خاتون لارنس آف عریبیہ بن جانے والی یہ محترمہ پاکستان میں کیا کاروبار کرتی ہیں؟

سنتھیا ڈی رچی کون ہیں؟ 38 سالہ سنتھیا 2009 میں پہلی بار پاکستان آئیں۔ اس دوران انہوں نے کچھ عرصہ پاکستان سے باہر بھی گزارا لیکن پچھلے سات سالوں سے وہ اسلام آباد میں مستقل طور پر مقیم ہیں۔ انہوں نے 2003 میں امریکہ کی لوئی زیانا اسٹیٹ یونیورسٹی سے قانون اور شعبہ ابلاغ عامہ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی بعد میں اسی یونیورسٹی سے انہوں نے 2005 میں تعلیم اور نفسیات کے شعبے میں ماسٹرز مکمل کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیکساس جوڈیشری نے سنتھیا کو چائلڈ ایڈووکیٹ مقرر کیا اور وہاں انہوں نے تقریباً ایک سال تک کام کیا۔ 2008 میں سنتھیا نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کی سٹی کونسل میں کمیونٹی رابطہ افسر کے فرائض بھی انجام دیے۔ سنتھیا کا اس حوالے سے کہنا تھاکہ اس وقت ہیوسٹن میں پاکستانی برادری سیاسی اور سماجی سطح پر کافی فعال تھی۔ اس دوران پاکستانی برادری کے ساتھ مل کر میں نے ہیوسٹن شہر کے لیے کافی کام کیا اور وہیں سے پاکستانیوں کے لیے میرے دل میں کافی عزت پیدا ہوئی۔

پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران سنتھیا ہیوسٹن کی اس وقت کی میئر اینیس پارکر کی خیرسگالی سفیر کے طور پر مختصر وقت کے لیے پاکستان آئیں۔ اس دورے کے کچھ عرصے بعد سنتھیا کی ملاقات موجودہ وزیراعظم عمران خان سے ہیوسٹن میں ہوئی جہاں وہ ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ سنتھیا کے مطابق اس ملاقات کے بعد وہ عمران خان سے رابطے میں رہیں۔ اس ایونٹ کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنتھیا کو محکمہ صحت میں کمیونیکیشن لیکچرر کے طور کام کرنے کی دعوت دی۔ سنتھیا کے مطابق انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور پاکستان آ کر بلا معاوضہ پی پی پی حکومت کے لیے اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس وقت کے وفاقی وزیر صحت مخدوم شہاب الدین سے ان کی اچھی دوستی تھی لیکن وہ اکثر بن بلائے ان کی رہائش گاہ پر آجاتے اور بغیر اطلاع دیے ان کے کمرے میں داخل ہو جاتے تھے۔ سنتھیا کے مطابق ایک بار انہوں کے ان کی پیٹھ پر مساج کرنے کی کوشش کی تھی جس کی انہوں نے مذمت کی اور پھر ان سے دوری اختیار کی۔ تاہم مخدوم شہاب الدین ان الزاما تکو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نتھیا جھوٹ بول رہی ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان کی عزت کی ہے۔ وہ اکثر میرے دفتر آیا کرتی تھیں اور کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

پاکستان آنے کے بعد سنتھیا محکمہ صحت کے لیے بطور کمیونیکیش لیکچرر تو کام کر ہی رہی تھیں لیکن انہیں اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ اس لیے انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی، جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی تھے، کی بیٹی فرحانہ سواتی کی این جی او ہیومینیٹی ہوپ میں ڈیڑھ سال تک کام کیا۔ اس دوران اعظم سواتی پر ٹیکس چوری کرنے کے حوالے سے تحقیقات جاری تھیں اس لیے سنتھیا کے مطابق اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اعظم سواتی کی بیٹی کی این جی او چھوڑ دیں۔ لیکن مالی مشکلات کے باعث سنتھیا نے ایسا نہیں کیا۔ پی پی پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ رحمٰن ملک نے سنتھیا کو یہ مشورہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی رحمٰن ملک سے اچھے تعلقات تھے۔ 2011 میں سنتھیا نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ میں اسٹریٹیجسٹ اور ریسرچر کے طور پر کام کیا۔ اس کے علاوہ پارٹی منشور کو ترتیب دینے میں بھی انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سنتھیا کے مطابق اس دوران ان کی دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی وابستگی ہوئی جن میں ایم کیو ایم، ن لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی سر فہرست ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اس دوران کچھ جماعتوں نے ان کی جاسوسی کی اور متعدد بار ان پر حملہ بھی ہوا۔ سنتھیا کئی سال تک پاکستان میں مقیم رہیں اور پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ میں اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔

بہر حال پاکستان میں اس قسم کے اسکینڈل اچھلتے رہتے ہیں۔ جب انٹرنیٹ کا زمانہ نہیں تھا تو ایک کتاب ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک“ خوب بکا کرتی تھی اور لوگ چٹخارے لے کر اسے پڑھا کرتے تھے۔ اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ فیس بک، انسٹا گرام اور ٹویٹر کا دور ہے۔ اب بھی کہانیاں جنم لیتی ہیں مگر اب وہ زیادہ دنوں تک پردہ راز میں نہیں رہ پاتیں بلکہ بہت جلد بے نقاب ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں چھپ کر کی ہوئی شادیوں کا سامنے آجانا تو ہر روز کا قصہ ہے مگر اس سے ہٹ کر شرعی تقاضوں کو پورا کیے بغیر تعلقات کی استواری بھی گاہے بگاہے خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے۔ جنسی ہراسانی، زیادتی، تشدد، دباو¿ اور دھمکیوں کے قصے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ عائشہ گلالئی نے عمران خان پر پورے شدو مد کے ساتھ الزامات لگائے اور بارہا کہا کہ ان کے پاس تمام بیانات کو ثابت کرنے کا مواد بھی موجود ہے۔ ماروی میمن نے اسحاق ڈار پر تواتر سے سکینڈلز کی گولیاں برسائیں۔ عائشہ احد نے حمزہ شہباز کو حدف بنایا۔ ٹک ٹاک والی لڑکیوں نے اپنے مخصوص انداز میں راز افشاں کرنے کی دھمکیاں دیں۔ مگر پھر کچھ عرصے بعد پیالی میں مچنے والے طوفان کی طرح سب کچھ خاموشی پر اختتام پزیر ہوا۔ کیا سنتھیا رچی کا معاملہ بھی پیالی میں طوفان کی مانند سرد پڑ جائے گا یا اس کا کوئی منطقی نتیجہ بھی نکلے گا، اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
(پاکستانی اخبارات کے حوالے سے)
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *