پورے پاکستان کو جھنجھوڑ دینے والے جھٹکے لگنا پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیلابوں، طوفانی بارشوں، زلزلوں، دہشت گردوں کے ہاتھوں خونریزی ،خواتین، بچوں اور کمزوروں و ضعیفوں کے خلاف بھیانک جرائم جیسے متعدد روح فرسا واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن گذشتہ ہفتہ ایک تین کمسن بچوں کی ماں سے سڑک کنارے کی گئی اجتماعی جنسی زیادتی تو نہایت درجہ بھیانک جرم ہے جس نے پورے پاکستان کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کر دیا۔
واقعہ یوں ہے کہ گذشتہ ہفتہ لاہور کے مضافاتی علاقہ گجر پورہ میں موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ اس کے کمسن بچوں کی نظروں کے سامنے اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ کار میں گیس ختم ہوجانے کے باعث اس خاتون کی کار بند ہو گئی تو اس نے اپنے رشتہ داروں کو فون کر کے اس کی اطلاع دی کہ عین بیچ راستے میں اس کی کار بند ہو گئی ہے اس لیے فوراً اس مقام پر پہنچیں ۔اسی اثنا میں وہاں سے کچھ رہزن گذرے ان کی نظر جیسے ہی کار پر پڑی اور اس میں انہیں ایک عورت بیٹھی نظر آئی تووہ فوراً وہاں پہنچے اور کھڑی گاڑی کے اندر بیٹھی خاتون اور اس کے بچوں کو، جو مدد کے انتظار میں کار کو مقفل کر کے اندر بیٹھے تھے، کار کے شیشے توڑ کر کھڑکی سے ہی جبراً باہر گھسیٹ لیا اور ہتھیار دکھا کر خاتون کو بچوں سمیت ایک کھیت میں لے گئے اور وہاں اس کا اجتماعی ریپ کیا۔ اور پھر اسے اس کے بچوں کے ساتھ تپتی سڑک پر ڈال کر فرار ہو گئے۔ان ڈاکوو¿ں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جاتے جاتے اس کی پاس موجود رقم، اس کے زیورات اور کریڈٹ کارڈ بھی لے گئے۔ کئی گھنٹوں کے بعد مقامی پولس کو یہ خاتون ملی جسے شدید زخمی حالت میں اس کے معصوم بچے اپنے پاس لیے بیٹھے تھے۔اس نے پولس کو دیکھتے ہی یہ کہاکہ اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے کیونکہ اس ابتلا کے بعد وہ کسی کو اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتی۔تصور کیجیے وہ آزمائشی گھڑی سے وہ کس طرح گذر رہی ہوگی اور اس کے بچوں نے اپنی نظروں کے سامنے جو کچھ ہوتے دیکھا اس کا ان کے معصوم ذہنوں پر کیسا اثر پڑا ہو گا۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ شہر کے پولس سربراہ نے زخموں پر مرہم رکھنے اور اپنی ماتحت پولس کو ملزموں کو جلد سے جلد گرفتار کرنے کے احکام جاری کرنے کے بجائے اپنے سنگدلانہ ریمارکس سے زخموں پر نمک نہیں بلکہ مرچ چھڑک دی ۔اس نے کہا کہ اس واردات کی یہ خاتون ،جو پاکستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے فرانس سے آئی تھی ،خود ہی ذمہ دار ہے اسے کیا ضرورت تھی اتنی رات کو گھر سے نکلنے کی ۔ سی سی پی او لاہور نے یہ ریمارکس کسی نجی ملاقات میں نہیں بلکہ ایک ٹی وی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے دیے تھے اور کہ خاتون رات ساڑھے 12 بجے اگر ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلی بھی تھیں تو تنہا کیوں نکلیں اور خود کیوں ڈرائیو کر رہی تھیں کسی ڈرائیور کا انتظام کر لیتیں اور اگر وہ تنہا ڈیفنس سے نکلی ہیں تو انہیں سیدھا جی ٹی روڈ پکڑنا چاہئے تھا اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو انہیں ایندھن چی چیک کرلینا چاہئے تھا کہ انہیں راستے میں کوئی دقت تو پیش نہیں آئے گی۔اس سی سی پی او نے مزید کہا کہ لیکن متاثرہ نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اس کا نتیجہ سامنے ہے۔
سی سی پی او نے اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لیے ایک اور بھدا اور مضحکہ خیز راگ الاپا اور فرانس اور پاکستان کے معاشرے کا موازنہ کرتے ہوئے پاکستانی ماں بہنوں کو محتاط رہنے کی تلقین کی۔کسی پولس افسر کے لیے جو تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہو ،یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ متاثرہ کو ہی’ آبیل مجھے مار‘ یا ’مصیبت کو خود دعوت دینے ‘کا شکار بتا ئے۔ اس کا اس قسم کا بیان نہ صرف قابل مذمت و نفرت ہے بلکہ قانونی طور پر ممنوع بھی ہے۔جیسے جیسے عوامی غصہ لاوا بن کر ابلنا شروع ہوا اور اس پولس افسر کے تبادلہ کی ہر طرف سے مانگ کی جانے لگی تو عمران خان حکومت نے وہ کیا جس کا تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے اس پولس افسر کے دفاع کے لیے اپنے بااختیار اور طاقتور مشیروں اور وزیروں کو مقرر کر دیا۔ان میں سے ایک نے کہا” آپ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ان کا کیا مقصد تھا۔“ایک دیگر نے یہ کہا کہ” انہوں نے ایسابیان دے کر کوئی قانون شکنی نہیں کی ہے۔“پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ،جن کے صوبے میں ہی یہ وحشیانہ واردات ہوئی، ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں میزبان کے ذریعہ اس سوال کو چار بار پوچھنے کے باوجود اس پولس افسر کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ۔لیکن جب اس پولس افسر کے خلاف طوفان غم و غصہ تین روز تک بھی نہیں تھما تب کہیں جا کر انہوں نے اس کا اعتراف کیا کہ پولس افسر کو اپنی پوزیشن صاف کرنی چاہئے۔
حکومتی نمائندے اس پر مصر رہے کہ یہ پولس افسر ، جو ابھی تک اپنے عہدے پر برقرار ہے،بہت لائق افسر ہے۔جبکہ اس کا سرکاری ریکارڈ اس کے برعکس داستان بیان کر رہا ہے۔کام کے معیار میں اسے ” بی“ اور فرض شناسی میں ’سی‘ گریڈ ملا ہوا ہے۔ حال ہی میں قومی سلیکشن و پروموشن بورڈ اسے سینئر عہدے پر ترقی دینے کا نااہل قرار دے چکا ہے۔حکومت کے ذریعہ متاثرہ پر الزام تراشی کرنے والے اور متنازعہ پولس افسر کی پشت پر ہاتھ رکھے جانے اور متاثرہ کے گھر والوں کا ساتھ نہ دینا اس قومی بے عزتی کے بارے میں قومی سطح پر مباحثہ اور گفتگو کو دو گروپوں میں تقسیم ہونے کا باعث بن گیاہے۔ ایک ٹوئیٹر صارف نے جس کے42ہزار فالوور ہیں کہا ہے کہ یہ خاتون ایک بلیک میلر بھی تو ہو سکتی ہے اور سارا ڈراما عمران خان حکومت اور اس کے پسندیدہ پولس افسران کے خلاف سازش ہو سکتا ہے۔ ایک اور ٹوئیٹر صارف نے خاتون ٹی وی میزبان کو دھمکی دی کہ اگر اس نے متاثرہ کے حق میں بولنا بند نہ کیا تو اسے بھی جنسی زیادتی کا شکار بنادیا جائے گا۔اس پولس افسر کے حمایت میں ہزاروں پیغامات سوشل میڈیا پر آنے لگے ہیں۔جس سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ مظلوم جنسی زیادتی کی شکار ہونے والی خاتون نہیں بلکہ وہ ہے۔