Pakistan's forced conversions shame Imran Khanتصویر سوشل میڈیا

سنتارہ کوہلی ،بھاگونتی کوہلی ،ایشاءمیگواڑ اور پرینکا کماری کے والدین اپنی بیٹیوں کے اغوا اور جبراً تبدیلی مذہب کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ہی مقامی اخبارات نے پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے جن سات واقعات کی خبر شائع کی اس میں4ہندو لڑکیاں ہیں۔ سنتارا، بھاگوتی اور ایشا ابھی بہت کم عمر ہیں اور سنتارا تو محض15سال کی ہے ۔ حقوق انسانی کمیشن آف پاکستان (ایچ آر پی سی) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ کم از کم 1000غیر مسلم لڑکیوں کاجبراً مذہب تدیل کرایا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سندھ کی ، جہاں پاکستان کے 8ملین ہندو رہائش پذیر ہیں، ہندو لڑکیاں ہوتی ہیں ۔مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اغوا کی واداتیں اتنی عام ہیں کہ اس سے کم وبیش ہر گھر متاثر ہے۔اور اغوا شدگان میں سے زیادہ تر کمسن بچیاں ہیں۔کچھ بچیاں تو محض12سال کی ہیں۔ پھر بھی تیزی سے تبدیلی مذہب کے ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کہاں ہے؟ اس ضمن میں2016 اور پھر2019میں دو بل پیش کیے گئے لیکن و قانون نہ بن سکے۔

ان بلوں میں جو شقیں مذکور تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ کسی کے تبدیلی مذہب کے وقت اس کی عمر18سال ہونی چاہئے۔اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائے گا نیز مذہب تبدیل کرنے والے کو21روز تک کسی محفوظ مکان میں گوشہ تنہائی میں ڈال دینا لازمی ہوگا تاکہ یہ امر یقینی ہو سکے کہ وہ برضا و رغبت مذہب تبدیل کر رہا/کر رہی ہے۔جبراً تبدیلی مزہب کے خلاف پہلا قانون مسترد کرتے ہوئے سندھ کے سابق گورنر سعید الزماں صدیقی نے کہا تھا”جب چوتھے خلیفہ حضرت علی ؓ 9سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہو سکتے تھے تو ہندو لڑکیاں کیوں نہیں ہو سکتیں۔قبول اسلام کے لیے عمر کی حد کا تعین کرنے پر کچھ لوگوں کی نظر میں جبراً تبدیلی مذہب پا پابندی لگانے والے قوانین غیر اسلامی ہیں۔

پاکستان میں بچپن کی شادی کا رواج ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف بھی کونسل برائے اسلامی نظریات (سی آئی آئی) کی جانب سے اسی قسم کی مزاحمت ہوئی تھی۔اور اس کے لیے یہ دلیل دی گئی تھی کہ شادی دو اجزاءپر مشتمل ہوتی ہے ایک نکاح او ردوسرا رخصتی ۔ اور نکاح کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے ہاں البتہ رخصتی سن بلوغیت کو پہنچنے کے بعد ہی ہونی چاہئے۔اس کے باوجود پاکستان گذشتہ سال بچپن کی شادی کے خلاف قانون منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا لیکن عدالتوں نے قانون کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کم عمر لرکیوں کی شادی اور جبراً تبدیلی مذہب کی اجازت برقرار رکھی۔ قانون اور جبر کی وسیع پیمانے پر ناکامیاں حکومت کی ان افراد کے لیے جو دائرہ اسلام سے باہر ہونا چاہتے ہیں، بے لچک پوزیشن کے قطعاً برعکس ہے۔

جس کی رو سے پاکستان کے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی رجسٹریشن پالیسی کے مطابق تبدیلی مذہب کے تحت شق میں کہا گیا ہے کہ ”مسلم ہونے کی تصدیق کرنے کے بعدکسی کو بھی دائرہ اسلام سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔“ اس شق کی خلاف ورزی کرنے والے پاکستان کے اسلامی حدود قوانین کے تحت سنگساری جیسی عبرتناک سزا دی جاتی ہے۔پاکستان13ممالک میں سے ایک ہے جہاں توہین مذہب پر سزائے موت ہے۔نتیجہ میں پاکستان میں ملحدوںکے سر پر ہمہ وقت موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اور کئیوں کو توہین مذہب کے الزامات عائد کر کے ہجومی تشدد میں ہلاک کیا جا چکا ہے یا قید میں ڈالا جا چکا ۔2017کے بعد سے جب سے کہ حکومت نے ملحدوں کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن شروع کیا ہے اس قسم کی وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ بیباک کالم نویسوں کو اغوا کیا جانے لگا ۔حکومت نے اشتہارات نکال کر لوگوں کو تلقین کرنا شروع کر دی ان میں جو بھی توہین مذہب کا مرتکب ہوتا ہو اس کی شناخت کریں کیونکہ ججوں نے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔

یہ سنگین صورت حال عمران خان کے، جو اپنی ساری توانائی دنیا بھر میں ”اسلامو فوبیا“ پر لگائے ہوئے ہیں، دور اقتدار میں وقوع پذیر ہو رہی ہے ۔انہیں کوئی یہ بتائے کہ مسلمانوں کی آواز دبانا اور ”مسلمانوں کی بری قسم“ کے ساتھ پاکستان کا سلوک بلا شبہ ا ن ممالک کے جن کووہ مورد الزام ٹہرا رہے ہیں،اسلام دشمنی سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی پشت پناہی کرنے والی نہایت با اختیار پاکستانی فوج کا ملک کے اسلامائزیشن میں نمایاں رول رہا ہے۔خان کے سیاسی حریف بھی اسی قسم کی ساز باز میں ہیں یہی نہیں بلکہ خود ساختہ آزاد خیال پاکستان پیپلز پارٹی بھی سندھ میں جبرٍٓ تبدیلی مذہب کرانے والے افراد سے خود کو دور رکھنے سے قاصر ہے۔پاکستان میں عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کی ستم رسیدہ برادریاں اپنے بچاؤ اور نجات کی تمام امیدیں چھوڑ چکی ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *