دوحہ: مسلم دنیا کی بڑھتی یک قطبی کے درمیان پاکستان کی مشرق وسطیٰ کے ممالک سے سفارتی تعلقات برقرار رکھنے کی حکمت عملی اب زیادہ کام نہیں کر رہی۔ الجزیرہ کے مطابق اب ماضی کے برعکس جب خلیجی ممالک پاکستان اور ہندوستان سے تعلقات میں توازن رکھا کرتے تھے اب ان کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف دکھائی دینے لگا اور پاکستان سے انہوں نے دوری اختیار کرنی شروع کر دی ہے۔الزیرہ میں دو غیر ملکی پالیسی تجزیہ کاروں عبد الباسط اور ڈاکٹر زاہد شہاب الجزیرہ میں رقمطراز ہیں کہ دوسری جانب پاکستان نے ترکی اور ملیشیا سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں ۔یہ دونوں وہ ممالک ہیں جنہیںسعودی عرب عالم اسلام میں اپنی بالا دستی اور قیادت کے لیے ایک چیلنج سمجھتا ہے ۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات گذشتہ ماہ اس وقت تلخ ہو گئے تھے جب پاکستان کے ہندوستان کی جانب سے دفعہ370ختم کرنے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے فروری کے اوائل میں کشمیر پر تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی)کی کونسل کا اجلاس طلب نہ کرنے کی پاکستان کی درخواست منظور نہ کیے جانے کے حوالے سے ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب کو کافی برا بھلا کہا۔قریشی نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو میں کہا تھاکہ اگر او آئی سی نے کشمیر پر اپنے رکن ممالک کے وزاراءخارجہ کونسل کا اجلاس نہیں بلا یا تو پاکستان کو مجبوراً ان اسلامی ممالک کا اجلاس بلانا پڑے گا جو کشمیر کے معااملہ پر اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور ستم رسیدہ کشمیری مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر تمام حدیں پار کر گئے اور کہا کہ ”آج ان پاکستانیوں کو جو ہمیشہ مکہ مدینہ کے لیے جان قربان کرنے تیار رہتے ہیں،سعودی عرب کی ضرورت ہے کہ وہ کشمیر معاملہ پر ایک قائدانہ رول ادا کر ے۔ اگر سعودی عرب کلیدی کردار ادا نہیں کرنا چاہتا تو مجھے وزیر اعظم عمران خان سے کہنا پڑے گا کہ سعودی عرب ساتھ ہو یا نہ ہو آپ پہل کریں۔ سعودی عرب واحد ملک نہیں ہے جس سے قریشی کو شکایت ہے ۔انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہ دینے کے لیے متحدہ عرب امارات کو بھی سخت سست کہا۔ اے آر وائی نیوز کے ساتھ ایک ٹاک شو میں بھی قریشی نے کہا تھا کہ”میں ایک بار پھر بصد احترام او آئی سی سے کہہ رہا ہوں کہ وزراءخارجہ کی کونسل کا اجلاس طلب کرنا ہماری توقع ہے۔اگر آپ اجلاس نہیں بلا سکتے تو مجھے وزیر اعظم سے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑے گا ان اسلامی ممالک کا ،جو کشمیر معاملے پر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور ستم رسیدہ کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں،اجلاس بلائیں۔ اور اگر او آئی سی وزراءخارجہ کونسل کا اجلاس نہیں بلاتی ہے تو پاکستان او آئی سی سے باہر کوئی بھی اجلاس بلانے کے لیے تیار ہے۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کر سکتا۔
جب سے ہندوستان نے گذشتہ سال اگست میںآرٹیکل 370کی تنسیخ کر کے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے پاکستان مسلم ممالک کے 57رکنی بلاک کی ، جو کہ اقوام متحدہ کے بعد سے سے بڑی عالمی تنظیم ہے ،وزراءخارجہ کونسل کا اجلاس کا مطالبہ کر رہا ہے۔اس سے قبل مسٹر قریشی پاکستان کے لیے وزراءخارجہ کونسل کی اہمیت کی وضاحت کر چکے ہیں۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ کشمیر مسئلہ پر امت اسلامیہ کی جانب سے ایک واضح پیغام ارسال کیا جائے۔قریشی نے کہا کہ گذشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پرپاکستان نے کولالمپور سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور اب پاکستانی مسلمان سعودی عرب سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس معاملہ پر وہ اپنی قیادت کا مظاہرہ کرے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ”ہمارے اپنے احساسات و جذبات ہیں ۔آپ کو انہیں سمجھنا ہوگا۔ خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہئے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اب سفارتی نزاکتوں اور آداب میں زیادہ نہیں الجھیں گے۔مسٹر قریشی نے قطعہ طور پر واضح پر کہہ دیا کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سب نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے بیان کے مضمرات سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ہم کشمیریوںکی حالت زار اور سعودی عرب و او آئی سی کی بے توجہی پرمزید خاموش نہیں رہ سکتے ۔ قریشی کے اس بیان کو سعودی عرب نے سعودی غلبہ والی تنظیم اسلامی تعاون کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی دھمکی کے طور پر لیا اور پاکستان سے سخت بیزار ہو گیا۔ اور اپنی ناراضگی کے اظہار کے طور پر سعودی عرب نے نومبر2018میں دیے گئے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضہ کر دیا جبکہ محض چھ ماہ پہلے ہی اس اس ضمن میں ہوئے معاہدے کی تجدید ہوئی تھی۔ واضح ہو کہ سعودی عرب نے 2018میں اس وقت پاکستان کی مسیحائی کی تھی جب اس نے پاکستان کو واجب الادا قرضے کی پریشانی سے نکالنے کے لیے سالانہ 3.2ارب ڈالر کا تیل تاخیر سے ادائیگی کی سہولت کے ساتھ دینے کا معاہدہ کیا تھا جو کہ 6.2ارب ڈالر کے پیکیج کے ایک جزو تھا۔باقی تین اراب ڈالر نقد قرض تھا۔سعودی عرب نے دیر سے ادائیگی کی سہولت یکم جولائی2019سے تین سال تک کے لیے بڑھا دی تھی اوراس سال مئی میں اس کی تجدید ہونا تھی۔تاہم سعودی عرب نے پاکستان کے رویہ سے بدظن ہوکر اسے منسوخ کر دیا ۔پاکستان کے ایک اور محسن متحدہ عرب امارات(یو اے ای) بھی پاکستان کو مالی امداد بہم پہنچانے کے وعدے سے مکر گیا ہے ۔
دسمبر 2018میں سعودی عرب کے نقش قدم چلتے ہوئے اس نے بھی پاکستان کو 6.2بلین ڈالر کا پیکج دیا تھا جس میں 3.2ارب ڈالر تیل خریداری کے لیے تھا۔ تاہم بعد میں اس نے اپنی مالی امداد میں تخفیف کر کے 2بلین ڈالر کر دی اور دیر سے ادائیگی کا منصوبہ بھی ترک کر دیا۔جب سعودی عرب نے قدغن لگایا تو پاکستان کو پسپائی اختیار کرناپڑی ۔لہٰذا قریشی نے شرمندگی دور کرنے کے لیے ان خبروں کی تردید کرنا شروع کر دی کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں کھٹاس آگئی ہے۔ دی نیوز انٹرنیشنل نے قریشی کے حوالے سے کہا کہ ”سعودی عرب نے نہ تو پاکستان سے قرضہ واپسی کا تقاضہ کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کو اس نے تیل کی فراہمی روکی ہے۔قریشی کے اپنے کہے سے مکر جانے کے نتیجہ میں پاکستانی صحافیوں نے وزیر خارجہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اس سے ان کے پہلے کیے گئے تبصروں کی تردید ہوتی ہے۔اس کے فوراً بعد حالات سنبھالنے کے لیے پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا آائی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کو لے کر سعودی عرب پہنچ گئے لیکن کو اس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب اپنے ملک کی جانب سے معافی مانگنے کے لیے سعودی عرب جانے کے باوجود وہ خادم حرمین شریفین و فرمانروائے سعودی عرب شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود سے تو دور کی بات ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) تک سے ملاقات کا شرف نہ حاصل کر سکے ۔ ایم بی ایس محض اخلاقاً اپنے چھوٹے بھائی شہزادہ خالد بن سلمان کو ، جو سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع ہیں،کہہ دیا کہ وہ پاکستان سے آنے والے سرکاری مہمانوں سے ملاقات کر لیں ۔الزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سودی عرب اور پاکستان کے درمیان موجودہ سفارتی کشیدگی کو مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام میں حالیہ اسٹریٹجک تبدیلی نو کے وسیع تر تناظر میں دیکھنی چاہئے۔کچھ عرصہ سے پاکستان حریف مسلم طاقتوں سے غیر جانبدارانہ تعلقات رکھنے کی روایتی پالیسی برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہے ۔جہاں ایک جانب پاکستان اپنے روایتی حریف ہندوستان اور سعودی عرب قیادت والے عرب ممالک گروپ کے درمیان گہرے اسٹریٹجک اور اقتصادی تعاون سے تشویش میں مبتلا ہے وہیں دوسری جانب سعودی عرب ترکی ،ملیشیا اور قطر جیسے مسلم غلبہ والے ممالک کے حق میں اس کے اقدامات کو مبنی بر دشمنی سمجھتا ہے۔
اب خلیجی ممالک کا ہندوستان کی طرف جھکاؤ اور پاکستان سے دوری اختیار کرنا واضح طور پر نظر آرہا ہے ۔اس کی ایک مثال 2019میں محمد بن سلمان کا دورہ ایشیا ہے۔جس میں سعودی ولیعہد شہزادہ نے پاکستان کے دورے کے فوراً بعد ہندوستان کا بھی دورہ کیا تھا۔اور پاکستان کے ساتھ 20بلین امریکی ڈالر کا معاہدہ کرنے کے بعد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیںکہ آئندہ دو سال کے دوران سعودی عرب ہندوستان میں100بلین امریکی ڈالر سے شزائد کی سرمایہ کاری کرے گا۔صرف سعود ی عرب ہی واحد ملک نہیں ہے۔ اگست2019میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ370کے خاتمہ کے بعد پاکستان نے عرب ممالک سے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کہا تھا ۔تاہم سعودی عرب سمیت اس کے تمام خلیجی دوست ہندوستان کے خلاف نہیں کھڑے ہوئے۔سعودی عرب نے تو ہندوستان سے یہاں تک کہہ دیا کہ جموں و کشمیر میں ہندوستان کی کارروائیوں اور اس کی سوچ کو وہ سمجھتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹجک تبدیلیوں پر سیاسی ماہرین و تجزیہ کاعروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو جھٹکے کگنا طے ہیں کیونکہ حالات بتا رہے ہیں کہ سعودی عرب کی ہندوستان سے قربت بڑھتی رہے گی اور دوسری جانب پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں کئی ممالک کے ساتھ اپنی پارٹنر شپ بحال کرنی اور سعودی عرب کی چھتر چھایہ میں واپس آنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔
