غزہ: (اے یو ایس )امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق فلسطینی شہری ایمن موسیٰ غزہ کی پٹی میں رہتا ہے۔ سال 2014ءمیں اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ میں بمباری سے ایمن کی فیکٹری تباہ ہو گئی تھی۔ بعد ازاں وہ اپنی فیکٹری کی تعمیر نو پر 4 لاکھ ڈالر خرچ کرنے پر مجبور ہو گیا۔حالیہ اسرائیلی بمباری میں ایمن کی فیکٹری جلے ہوئے لوھے کا ڈھیر بن گئی اور چھ بچوں کا باپ ایمن اب دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اس کو اسرائیل ، حماس تنظیم اور تنظیم کے سربراہ یحیی السنوار پر شدید غصہ ہے۔
امریکی اخبار کے مطابق ایمن کا کہنا ہے کہ “میں کاروبار کرتا ہوں … حماس کے قائد یحییٰ السنوار اور اسرائیل دونوں میں سے کوئی بھی میرے خاندان کے لیے رقم کی ادائیگی نہیں کرے گا”۔غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی رہتے ہیں۔ ان میں آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔حالیہ اسرائیلی بمباری میں غزہ شہر میں کئی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ الوحدہ ا سٹریٹ پر سکونت پذیر 44 سالہ یحییٰ سامی نے جنگ کے دونوں فریقوں کی ملامت کی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو میں اس نے مزید کہا کہ غزہ کی صورت حال ہر سال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ، یہاں کے لوگوں کو کوئی امید نہیں ہے۔امریکی اخبار کے مطابق حماس کے ترجمان نے تنظیم کے سربراہ السنوار کے ساتھ انٹرویو کی درخواست مسترد کر دی۔اخبار نے اسرائیلی ذمے داران کے حوالے سے بتایا ہے کہ یحییٰ السنوار نے حماس تنظیم کے عسکری ونگ کی تشکیل میں مدد کی۔ سال 1988 میں اسے گرفتار کر کے اسرائیلی فوجیوں کے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ ایک امریکی ذمے دار کے مطابق السنوار کے خلاف عمر قید کے چار فیصلے سنائے گئے۔السنوار کو 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت آزاد کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت حماس تنظیم کی حراست میں موجود ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے 1027 فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔
![Palestinian citizen Aiman Moosa whose factory has been destroyed in israeli bombardment in Gaza become furious against Hamas chief and Israel](https://urdutahzeeb.com/wp-content/uploads/2021/06/images-2.jpg)