'Pandora Papers': Key members of Pakistan PM's inner circle among over 700 Pakistanis named in leaksتصویر سوشل میڈیا

لندن:(اے یو ایس )وزیراعظم عمران خان کے کئی اہم وزراءاورمشیروں کے نام کے اربوں روپیئے کے اثاثے بیرونی ملکوں میں پائے گئے۔ نئے دستاویز میں تقریباً 35موجودہ اور سابق سربراہان کا نام بھی ہے۔ جن پر کرپشن ،منی لانڈرنگ اور ٹےکس چوری کے الزامات ہیں۔

واضح ہو کہ ایک بڑے مالی ا سکینڈل سے متعلق دستاویزات کے افشا سے متعدد عالمی رہنماؤں، سیاستدانوں اور ارب پتی افراد کی خفیہ دولت اور مالی لین دین کی تفصیلات بے نقاب ہو گئی ہیں۔ان دستاویزات میں عمران خان کے کئی اہم وزراءاورمشیروں کے نام بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ کے احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کے شیری رحمان نے کہا کہ وزیراعظم اپنے دیانتداری کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں لیکن اب حقیقت لوگوںکے سامنے آگئی ہے۔ اپوزیشن جماعتےں عمران خان کے استعفیٰ کی مانگ کررہی ہیں۔اس میں اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ ،روس کے صدر ولادیمرپتن ،آذربائیجان کے صدر کا بھی نام ہے۔ پاکستان کے وزیرخزانہ شوکت کریم کے علاوہ سینٹرفیصل واڈا کا نام بھی اس میں ہے۔

روزنامہ ڈان کے ایک رپورٹ کے مطابق 700سے زیادہ پاکستانی سیاست دان ،سابق فوجی افسران ،سرمایہ کار اور صحافیوں کے بیرونی میں ملکوں میں غیر قانونی اثاثوں کا پتہ چلا ہے ان میں ناموصحافی حمید ہارون ،امیر چیمہ اور فخر درانی کے بھی اثاثوںکا پتہ چلا ہے۔مالی معاملات سے متعلق ان دستاویزات میں جن افراد کی خفیہ دولت اور مالی معاملات کا انکشاف ہوا ہے ان میں 35 موجودہ اور سابق عالمی رہنماؤں سمیت تقریباً تین سو ایسے عوامی نمائندے شامل ہیں جن کی آف شور کمپنیاں تھی۔ ان دستاویزات کو پینڈورا پیپرز کا نام دیا گیا ہے۔ان دستاویزات میں اردن کے بادشاہ کی خفیہ طور پر امریکہ اور برطانیہ میں 70 ملین پاو¿نڈز کی جائیدادوں کا انکشاف کیا ہے۔اس کے علاوہ ان دستاویزات کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقے میں شامل افراد، جن میں ان کی کابینہ اور ان کے خاندان کے کچھ افراد شامل ہیں، خفیہ طور پر لاکھوں ڈالر کی کمپنیوں کے مالک ہیں۔

ان دستاویزات میں یہ بھی افشا کیا گیا ہے کہ کیسے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور ان کی اہلیہ نے لندن میں دفتر خریدتے وقت اسٹامپ ڈیوٹی کی مد میں تین لاکھ 12 ہزار پاونڈز بچائے تھے۔ اس جوڑے نے ایک آف شور کمپنی خریدی تھی جس کی ملکیت میں یہ عمارت تھی۔پینڈورا پیپرز نامی لیک ہونے والے ان دستاویزات میں روسی صدر ولادمیر پوتن کے موناکو میں خفیہ اثاثوں کا بھی ذکر ہے اور ان دستاویزات میں جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم اندریج بابس کی خفیہ آف شور انوسٹمنٹ کمپنی کو بھی ظاہر کیا گیا ہے جس کے ذریعے انھوں نے جنوبی فرانس میں 12 ملین پاو¿نڈز مالیت کے دو ولاز خریدے۔واضح رہے کہ جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم اگلے ہفتے انتخابات لڑ رہے ہیں اور انھوں نے اپنی یہ خفیہ آف شور انوسٹمنٹ کمپنی ڈیکلیئر نہیں کی ہوئی۔گذشتہ سات برسوں کے دوران فن سین فائلز، دی پیراڈائز پیپرز، پانامہ پیپرز اور لکس لیکس جیسے لیک ہونے والے دستاویزات کی کڑی میں یہ تازہ ترین ہے۔

ان دستاویزات کاہ جائزہ اور چھان بین انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹو جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) نے کی ہے جس میں دنیا بھر سے 650 سے زائد رپورٹروں نے حصہ لیا۔گارڈین اور دیگر میڈیا شراکت داروں کے ساتھ اس مشترکہ تفتیش میں بی بی سی پینوراما نے برٹش ورجن جزائر، پاناما، بیلیز، قبرص، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ کی 14 مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں سے 12 ملین دستاویزات تک رسائی حاصل کی ہے۔جن افراد کی خفیہ دولت اور لین دین کے مالی معاملات کے متعلق پینڈورا پیپرز میں انکشافات ہوئے ہیں ان میں سے چند افراد کو کرپشن، منی لانڈرنگ اور عالمی سطح پر ٹیکس بچانے کے الزامات کا سامنا ہے۔لیکن ان میں سے سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ کس طرح ممتاز اور مالدار افراد برطانیہ میں خفیہ جائیدادیں خریدنے کے لیے جائز آف شور کمپنیاں قائم کر رہے ہیں۔

ان دستاویزات ان جائیدادوں کی خریداری کے پیچھے 95،000 آف شور کمپنیوں کے مالکان کا انکشاف ہوا ہے۔یہ تحقیق برطانوی حکومت کی اس ناکامی کو اجاگر کرتی ہے کہ حکومت متعدد وعدوں کے باوجود ایک ایسی فہرست متعارف کروانے میں ناکام رہی ہے جس میں بیرون ملک اثاثے رکھنے والے افراد کے نام درج ہوں گے۔واضح رہے کہ برطانیہ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ چند پراپرٹی خریدار اس سے اپنی منی لانڈرنگ سرگرمیوں کو چھپا سکتے ہیں۔جیسا کہ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف اور ان کی اہل خانہ پر اپنے ہی ملک کو لوٹنے کا الزام ہے۔تحقیقات میں یہ علم ہوا ہے کہ صدر الہام اور ان کے قریبی رفقا خفیہ طور پر برطانیہ میں 400 ملین پاو¿نڈز سے زائد مالیت کی جائیدادیں خریدنے میں ملوث ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *