واشنگٹن:(اے یو ایس)پینٹاگون نے صدر ٹرمپ کے بیان پر اب تک کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا جب کہ وزیرِ دفاع مارک ایسپر سے جمعرات کو پینٹاگون میں ایک تقریب کے دوران افغانستان سے فوجی انخلا سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔مارک ایسپر کے ترجمان، جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملے اور امریکی سینٹرل کمان نے صدر ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے اور وائس آف امریکہ کو کہا ہے کہ اس حوالے سے وائٹ ہاو¿س سے رابطہ کیا جائے۔ایک فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ محض ‘ابتدائی لفظ’ ہے تاہم ہر کوئی افغانستان سے فوجی انخلا کو تیز ہوتے دیکھ رہا ہے۔
فوجی عہدیدار نے مزید بتایا کہ صدر ٹرمپ کا آفس افغانستان سے فوجی انخلا سے متعلق پینٹاگون کی پالیسی ٹیم کی ہدایات کا منتظر ہے تاکہ مزید گائیڈ لائنز فراہم کی جا سکیں۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے جمعرات کی علی الصباح اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں خدمات انجام دینے والے اپنے بہادر فوجیوں کو کرسمس تک ہمیں واپس اپنے گھر بلا لینا چاہیے۔صدر ٹرمپ کی اس ٹوئٹ سے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ یہ حکم دے رہے ہیں یا اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کئی مواقع پر امریکی فوج کی بیرونِ ملک موجودگی کو شرمناک، احمقانہ، دوسروں کی لڑائی اور نہ ختم ہونے والی جنگ سے تشبیہ دیتے رہے ہیں۔اگر صدر ٹرمپ کے بیان پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو افغانستان سے فوج واپس بلانے کا ا±ن کا امریکی عوام سے کیا گیا وعدہ پورا ہو جائے گا۔بیشتر امریکی عوام بھی فوج کی افغانستان سے واپسی کے حامی ہیں۔
صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ سے متعلق جب مغربی ملکوں کے فوجی اتحاد (نیٹو) کے سربراہ جینس اسٹول ٹینبرگ سے سوال کیا گیا تو ا±ن کا کہنا تھا کہ ہم زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے کیوں کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پرعزم رہنا انتہائی ضروری ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں طویل مدتی استحکام ہی ہمارے مفاد میں ہے۔ اس لیے ہم افغانستان سے انخلا کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے اور درست وقت پر ہم ایک ساتھ افغانستان سے انخلا کریں گے۔صدر ٹرمپ کے جمعرات کو ٹوئٹ سے چند گھنٹے قبل ہی امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے کہا تھا کہ افغانستان میں 2021 کے اوائل میں فوجیوں کی تعداد 5000 سے گھٹا کر 2500 کر دی جائے گی۔امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی ستمبر کے وسط میں اسی طرح کا بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس موسمِ بہار تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کر لیا جائے گا۔امریکی سینٹرل کمان کے کمانڈر جنرل کینتھ فرانک مک کینزی نے گزشتہ ہفتے ہی وائس آف امریکہ اور دیگر دو نیوز اداروں کو انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں 4500 فوجیوں کے باوجود ہم بنیادی کام کو مکمل کرنے کے اہل ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں افغانستان میں جڑیں گاڑھ کر امریکہ پر حملے نہ کریں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت امریکہ کو 2021 کے وسط میں افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کرنا تھا۔ طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو بیرونِ ملک حملوں کے لیے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔امریکہ کی حکومت کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے دہشت گرد گروپس قرار دی گئی 20 تنظیموں کا گڑھ پاکستان اور افغانستان ہے۔امریکی تھنک ٹینک بروکلن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر رکن مائیکل او ہینلن نے کہا ہے کہ ا±ن کے خیال میں ہم فوری طور پر افغانستان سے نہیں نکل سکتے۔انہوں نے صدر ٹرمپ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح افغانستان سے فوجی انخلا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہو گا۔مائیکل او ہینلن کے مطابق امریکی فوج کے انخلا سے افغانستان عدم استحکام کے خطرے سے دو چار ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں القاعدہ اور داعش وہاں اپنی جڑیں پکڑ سکتیں ہیں اور مستقبل میں حملوں کی منصوبہ بندی کا خدشہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ پر خاموش ہے جب کہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ اسے مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔یاد رہے کہ امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد امریکی فورسز نے 2001 میں افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد امریکہ کی یہ طویل ترین جنگ اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔