پشاور:( اے یوایس) پشاور ہائیکورٹ نے پاکستانی فوج کی حراست میں قید سماجی رہنما ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا عمل معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم ادریس خٹک کی رہائی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا۔نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا ادریس خٹک کے خلاف منگلا میں فوجی عدالت میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی روک دی جائے اور صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔
ادریس خٹک کی جانب سے عدالت میں سینیئر وکیل لطیف آفریدی ایڈووکیٹ اور طارق افغان ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت نے ادریس حٹک کے خلاف فوجی عدالتوں میں جاری سماعت روکنے کا حکم دیا ہے اور اب جب تک پشاور ہائی کورٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی تب تک فوجی عدالت میں اس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔انھوں نے بتایا کہ عدالت نے متعلقہ حکام کو نوٹسز جاری کرتےہوئے آئندہ سماعت کے لیے 21 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ سیکرٹ سروس ایکٹ کے تحت کسی بھی سویلین پر مقدمے کا اپنا طر یقہ کار ہے جسے اپنانا ضروری ہے۔
طارق افغان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی درخواست میں یہی موقف اپنایا تھا کہ ادریس خٹک پر جو مقدمہ چلایا جا رہا ہے وہ غیرقانونی ہے کیونکہ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو چکی ہے اور آرمی ایکٹ کی جو شقیں ہیں ان میں کسی عام شہری پر مقدمہ چلانے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے وزارت دفاع، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل، ڈی جی آئی ایس آئی اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کیے جو کہ عدالت میں موجود ڈپٹی اٹارنی جنرل نے وصول کیے ہیں‘۔ادریس خٹک نے روس سے اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بطور محقق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ا±ن کی تحقیق کا ایک بڑا حصّہ سابق فاٹا، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد رہے ہیں جبکہ وہ سماجی کارکن کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
انھیں نومبر 2019 میں اسلام آباد سے اکوڑہ خٹک کے راستے پر صوابی انٹرچینج کے پاس چند سادہ لباس میں ملبوس افراد نے ان کی گاڑی سے اتار لیا تھا جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے۔ان کی گمشدگی کے سات ماہ کے بعد حکومت نے ان کے فوج کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی تھی۔ ادریس خٹک کے وکیل لطیف آفریدی کے مطابق ان پر سکیورٹی اداروں کے بارے میں خفیہ معلومات رکھنے اور افشا کرنے کا الزام ہے اور ان کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی تھی۔لطیف آفریدی کے مطابق ‘پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کی جانب سے لاپتہ افراد کے کمیشن میں جمع کروائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں بنے قانون آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت ادریس خٹک پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔‘13 نومبر 2019 کو دوپہر کے وقت ادریس خٹک کی گاڑی کو صوابی ٹول پلازہ سے گزرنے کے بعد روکا گیا۔ وہاں سے ادریس خٹک کو ان کے ڈرائیور شاہسوار سمیت ایک اور گاڑی میں لے جایا گیا۔
پھر اگلی صبح ادریس خٹک نے اپنے ایک دوست کو فون کرکے اپنا لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈسک منگوائی تھی۔ چونکہ ادریس خٹک گھر بند کر کے گئے تھے تو ان کے دوست کو گھر بلایا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو لوگ ا±ن کے گھر کی چابی لیے پہنچے اور دوست کے ساتھ ادریس خٹک کے فون کے ذریعے نشاندہی کرنے پر ا±ن کا سامان لے کر چلے گئے تھے۔دو دن گزرنے کے بعد ادریس خٹک کے ڈرائیور کو موٹروے پر اسلام آباد ٹول پلازہ کے نزدیک چھوڑ دیا گیا اور انھیں گاڑی واپس دے کر سیدھا گھر جانے کا کہا گیا۔ جس کے بعد وہ رات گئے گاؤں واپس آ گئے۔ اس کے بعد ڈرائیور شاہسوار نے انبر پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی۔شاہسوار کی طرف سے تھانے میں درج شکایت کے مطابق ‘صوابی ٹول پلازہ سے گزرنے کے فوراً بعد سادہ لباس میں ملبوس دو لوگوں نے ان کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔
گاڑی رکتے ہی چار آدمی گاڑی کے اردگرد کھڑے ہو گئے جن میں سے دو نے ادریس خٹک اور شاہسوار کی آنکھوں پر پّٹی باندھ دی اور دوسری گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ادریس خٹک کے لاپتہ ہونے کو انتہائی سنجیدہ معاملہ قرار دیا تھا۔ تنظیم نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ‘ادریس خٹک کو سادہ لباس میں موجود افراد نے غائب کر رکھا ہے۔ ان کے حوالے سے ان کے خاندان کو معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں اور وہ تشدد یا اس سے بھی بدترین حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔