مخدوم شیخ سید علاء الدین علی احمد صابرؒ، جن کا بروز جمعہ 21فروری 2020کو 824واں یوم پیدائش ہے،ؒ بروز بدھ مورخہ 19 ربیع الاول 592ھ بمطابق 21فروری1196ءمیں ملتان کے ایک مقام کوتوال میں پیدا ہوئے اور95سال کی عمر میں27شعبان بروز اتوار687ھ بمطابق 16مارچ1291ء کو وفات پائی۔ مستند روایت کے مطابق آپ ؒ کا شجرہ نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور والدہ کی طرف سے خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔آپ ؒ شیخ عبدالقادر جیلانی کےپڑ پوتے اور پاکپتن مقیم شیخ الاسلام ،وطب اکبر بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے،جن سے سات سال کی عمر میں ہی بیعت کرنے کے بعد اگلے سال 8سال کی عمر میں ہی حضرت کی خدمت میں بھیج دیے گئے تھے، حقیقی بھانجے ہیں اور پھر انہی کی صاحبزادی سے نکاح ہونے کے باعث حضرت ؒ کے داماد ہونے کا بھی اعزاز پایا ۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل بابا گنج شکر کی نگرانی میں فرمائی اور یگانہ روزگار ہوئے۔ بابا گنج شکرنے آپ کو خلافت عطا کر کے مخلوق کی رشد و ہدایت کے لیے پیران کلیر شریف،جو پہلے اترپردیش کے اور اب اترا کھنڈمیں گنگا کے ساحلی ضلع ہری دوار کے روڑکی شہر سے8جکلومیٹر دوری پر واقع ہے، روانہ فرمایا۔ وکی پیڈیا کے مطابق باوجود یکہ آپ پر شوق و حال کا غلبہ رہتا تھا اور تجرید و تفرید کی زندگی رکھتے تھے مگر عائد کردہ فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا اور دین و سنت کی ایسی شمع روشن کی کہ اس کی لو کبھی مدہم نہ ہوئی۔ منقول ہے کہ آپ ایک طویل عرصہ تک ماموں جان کے لنگر خانے کے نگراں رہے مگر وہاں سے ایک دانہ بھی نہ کھایا اور اس کے بعد سے آپ کا لقب صابر ہو گیا۔ بارہ سال تک کلیر میں گولر کی شاخ پکڑ کر عالم تحیر میں کھڑے رہے مگر پائے عزیمت میں جنبش تک نہ آئی۔ جس پر نگاہ جمال ڈالتے وہ باکمال ہو جاتا اور جس چیز پر نگاہ قہر ڈالتے وہ خاکستر ہو جاتی۔ حضرت بابا گنج شکرصاحبؒ نے فرمایا تھا کہ میرے سینے کا علم نظام الدین کے پاس ہے اور دل کا علم علاء الدین کے پاس ہے۔

مزار مقدس سرزمین کلیر ضلع سہارن پور میں نہر گنگ کے کنارے پرمرجع انام ہے۔ سلسلہ چشتیہ کی دوسری سب سے بڑی شاخ آپ ہی کی نسبت سے صابری کہلاتی ہے اور آپ کے سلسلہ میں اتنے اولیاء و علما پیدا ہوئے کہ شمار ناممکن ہے۔ آپ دوران سماع واصل بحق ہوئے۔آپ خلاف شریعت نہ خود چلے نہ دوسروں کو چلتا دیکھ سکتے تھے۔ بلکہ احکام اسلام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سختی سے ڈانٹتے تھے۔ تو آپ کو دین اسلام کی تبلیغ اور علوم دین کی اشاعت کے لیے جناب فرید نے شہر فیض بخش کلیر کو جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ پاکپتن سے کلیر تشریف لے گئے۔ اور وہاں پہنچ کر اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا شروع کر دیا۔ ابھی کلیر میں آئے ہوئے آپ کو تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ آپ کے کمالات علمی کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ایک خلق خدا آپ سے فیض پانے لگی۔ جب شہر کلیر برباد ہوا تو اس کے بعد لوگوں پر آپ کی روحانی قوت کی اتنی ہیبت چھا گئی۔ کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے انہیں خوف آتا تھا۔ آپ کے خلفاء میں جناب شیخ شمس الدین ترک پانی پتی آپ کے ممتاز خلیفہ ہیں۔ وہ آپ کی خدمت میں پورے32 برس تک رہے۔ اور کبھی آپ سے جدا نہیں ہوئے جب ترک پانی پتی آپ سے روحانی تحصیل کر چکے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ جا ؤسواروں میں جا کر ملازم ہو جا ؤاور دیکھو جس روز تمہاری کوئی دعا کسی کے حق میں قبول ہو جائے۔ سمجھ لینا کہ میں دنیا سے چلا گیا۔ چنانچہ ترک پانی پتی مرشد کے حکم سے شاہی فوج میں نوکر ہو گئے۔ اور سلطان علاءالدین خلجی کے ساتھ چتور گڑھ کی مہم کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔

سلطان نے بڑی کوشش کی اور ایک طویل عرصے تک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا۔ مگر قلعہ فتح نہ ہوا۔ اسی دوران میں ایک روز رات کو ایسی آندھی چلی کہ تمام لشکر کے چراغ پٹ ہو گئے۔ مگر ایک چراغ جل رہا تھا جسے دیکھ کر سلطان کو بڑا تعجب ہوا۔ سلطان معلوم کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص خیمے میں قرآن پڑھ رہا ہے۔ وہ یہ ماجرا دیکھ کر چپ چاپ مؤدب کھڑا رہا۔ جب ترک پانی پتی قرآن حکیم کی تلاوت سے فارغ ہوئے۔ تو سلطان کو باہر کھڑا دیکھ کر جلدی سے اس کی تعظیم کے لیے آگے بڑھے اور پوچھا کہ حضور نے اس وقت کیسے زحمت فرمائی۔ سلطان نے کہا میرا قصور معاف کر دیجیے۔ اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کیجیے۔ کہ قلعہ فتح ہو جائے۔ آپ نے یہ سن کر کہا کہ میں تو آپ کی فوج کا ایک ادنیٰ سا ملازم ہوں۔ مجھے ایسی مقبولیت کہاں نصیب ہے جو میری دعا قبول ہو جائے۔ آپ کو شاید کسی نے بہکا دیا ہے۔ سلطان نے اصرار کیا کہ نہیں ایسا نہ کہیے۔ آپ دعا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ چنانچہ ترک پانی پتی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ اللہ نے دعا قبول فرما لی۔ اور قلعہ فتح ہو گیا۔ قدرت خدا جناب مخدوم کلیری کی بات پوری ہوئی۔ جس روز ترک پانی پتی کی دعا قبول ہوئی۔ اسی روز جناب مخدوم کلیری کا انتقال ہو گیا۔ ترک پانی پتی کے دل نے اس واقعہ ناگزیر کی گواہی دی۔

چنانچہ وہ کلیر پہنچے اور اپنے مرشد کے تجہیز و تکفین کے فرض کو سر انجام دیا۔لودھی سلطنت کے آخری بادشاہ ابراہیم لودھی نے آپ ؒ کا مزار تعمیر کرایا ۔اور کئی صدیوں بعد درگاہ کے اطراف ایک قصبہ قائم ہوا جس کا نام پیران کلیر رکھا گیا۔ جہاں ہر سال ماہ ربیع الول میں بڑی دھوم دھام سے ان کا عرس منایا جاتا ہے۔رڑکی ریلوے اسٹیشن سے ان کے مزار تک پہنچنا بہت آسان ہے اور سال بھر وہاں حاضری دی جا سکتی ہے۔ شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے اپنے عہد میں آپ کے مزار کا گنبد تعمیر کرایاتھا۔ خواجہ حسن نظامی نے آپ کے عرس کی ایک کی فیت لکھی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے چودہ تک جناب مخدوم کلیری کا عرس ہوتا ہے۔ جس میں ملک و بیرون ملک سے لاکھوں ادفراد کا مجمع ہوتا ہے۔ صابریہ سلسلے کے تمام مشائخ اور ان کی خانقاہوں کے سجادہ نشین اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس سال ان کا 752واں عرس ماہ اکتوبر تانومبر منعقد ہونا طے ہے۔عرس کا آغاز ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی مہندی ڈوری کی رسم کی ادائیگی سے ہوگا۔اس موقع پر گل شریف کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے اور درگاہ شریف کو عرق گلاب اور عرق کیوڑہ سے غسل دیاجاتا ہے ۔آب غسل جمع کرنے کے لیے لاکھوں زائرین ٹوٹ پڑتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *