شاہد ندیم احمد (صدائے سحر ،پاکستان)
اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا شور برپا ہے ،ایک طرف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کیلئے جوڑ توڑ میں مصروف ہے تو دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے پلیٹ فارم پر مشترکہ لانگ مارچ کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے،حکومت کے خلاف اپوزیشن قیادت کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے،مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہبازشریف کی جہانگیرترین اور آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے دعوﺅں پر مزید تیز ی ضرو آگئی ہے،مگر ان دعوﺅں کے پورے ہونے کے امکانات مخدوش دکھائی دیتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں دعوے اور بڑھکیں تو بہت ماری جاتی ہیں، مگر اصل پتہ اس وقت ہی چلتا ہے کہ جب سیاسی میدان لگتا ہے، اس میں ہی اندازہ ہوتا ہے کون کہاں کھڑا ہے،اس وقت اپوزیشن کے ساتھ حکومت پر بھی ایک واضح دباو¿ نظر آتا ہے، حکومت سب سے زیادہ اپنے اتحادیوں سے فکر مندہے کہ اگر اِدھر ا±دھر ہو گئے تو حکومت زمین پر آ رہے گی،اگر چہ مونس الٰہی نے وزیر اعظم کو یقین دلایا تھا کہ حکومت کے اتحادی ہیں اور اتحادی ہی رہیں گے، سیاسی ملاقاتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،تاہم وزیر اعظم کے چہرے پر آنے والی معنی خیز مسکراہٹ اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ انہیں اس بات پر کتنا یقین ہے؟
اس حکومت ایسے اتحادی ملے ہیں کہ جو مشکل حالات میں بھی کوئی زیادہ ناجائز فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں،حکومت کے اتحادی چھوٹے موٹے مطالبات ضرور کرتے ر ہتے ہیں،مگر حکومت کوکبھی بلیک میل نہیںکرتے ہیں، مسلم لیگ (ق) قیادت ویسے ہی سیاسی وضع داری میں پھنسی ہوئی ہے،انہیں حالات اس بات کی اجازت ہی نہیں دے رہے کہ حکومت کومنجدھار میں چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں، یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی مسلسل کوششوں کے باوجود چودھری برادران حکومت کی حمایت چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں ،جبکہ اپوزیشن آج بھی انہیں ساتھ ملانے کیلئے تمام تر کاﺅشیں کررہی ہے۔
اپوزیشن قیادت اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومتی اتحادی اشارے کے منتظر ہیں ، اتحادیوں کو جب تک اشارہ نہیں ملے گا ،حکومت کاساتھ نہیں چھوڑیں گے ،اس کے باوجود اپوزیشن جہاں اتحادیوں سے ملاقاتیں کرکے ساتھ ملانے کیلئے کوشاں ہے ،وہیںحکومت باور بھی کروارہی ہے کہ ان کی نمبر گیم پوری ہو گئی ہے،لیکن یہ بتانے کیلئے تیار نہیں کہ نمبر کیسے پورے ہوئے اورکس نے پورے کئے ہیں،اس پردہءزنگاری میں کون ہے کہ جو ان کیلئے سیاہ کو سفید کر رہا ہے، اپوزیشن لاکھ دعوئے کرے ،مگرجب تک حکومت کے اتحادی اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیں گے ،اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لاسکتی ہے نہ تحریک عدم اعتماد کامیاب بناسکتی ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے باہر نہیں ہوا ہے،تاہم اپوزیشن بضد ہے کہ تحریک عدم اعتماد ضرور کا میاب ہو جائے گی،اپوزیشن بظاہر بتانے میں کوشاں ہیں کہ مقتدار قوتیں نیوٹرل ہو گئی ہیں اور حکومت کا جانا ٹھر گیا ہے، یہ ایک سیاسی واہم کے علاوہ کچھ نہیںکہ مقتدرقوتیں نیوٹرل ہو گئی ہیں،اس ملک میں ایسا دن کبھی نہیں آئے گا کہ جب مقتدر قوتیں نیوٹرل ہو جائیں ،کیو نکہ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ میں دے دیئے گئے تو وہ سسٹم کو چار دن بھی درست طریقے سے چلنے نہیں دیں گے۔
اس وقت اپوزیشن تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کے نام پر صرف کھیل تماشا کررہی ہے، یہ ایک سیاسی رابطہ مہم ہے کہ جو ہر سیاسی جماعت آئندہ انتخابات کے پیش نظر چلا رہی ہے، اس میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو ہٹانے کاکوئی آپشن ہے نہ لانگ مارچ کے ذریعے دباﺅ بڑھایا جارہا ہے ،پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ضورور ہو گا اور اس کے ذریعے کارکنان کو متحرک کرنے کی کوشش کی جائے گی،اس لانگ مارچ میں چند دن ہلہ گلہ رہے گا،اس کے بعد سیاسی فضا کشیدہ ضرور ہے گی، مگر اس میں فی الوقت تبدیلی کی کہیں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ہے۔
بلاشبہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی نہ آئندہ آنے کی کوئی اُمید نظر آتی ہے ،کیو نکہ حکومت اور اپوزیشن کی تمام تر توجہ کا مرکز عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے سیاسی رستہ کشی اور جوڑ توڑ ہے، عوام ان دونوں متحارب فریقین کی باہمی لڑائی اور چپقلش سے شدید نالاں اور عاجز آچکے ہیں،اس صورت حال میں حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کی طرف سے آنے والی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرے ،عوامی مسائل کے حل ہونے سے ایک طرف عوام میں پایا جانے والا اضطراب کم ہوسکے گا تودوسری طرف اپوزیشن کے لیے حکومت کا مقابلہ کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔