شاہد ندیم احمد (پاکستان)
ملک میں انتخابات عوام کا درینہ مطا لبہ ہے ،لیکن حکمران اتحاد عوام کا مطالبہ ماننے سے انکاری ہیں ،الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہ کرانے میں حکومت کا مکمل ساتھ دے رہا ہے ،الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے حکم پر نظر ثانی کیلئے در خواست بھی دائر کررکھی ہے۔اس پر گزشتہ روز سماعت پر امید کی جارہی تھی کہ کوئی بڑا فیصلہ آئے گا ،مگر سپر یم کورٹ نے اس امید کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دے دیا کہ شاید موجودہ کشیدگی کے خاتمے کا کوئی قابل قبول سیاسی حل ہی نکل آئے۔عدالت عظمیٰ توبار بار موقع فراہم کررہی ہے لیکن کیااہل سیاست ان مواقع سے فائدہ اُٹھائیں گے یا معاملات مزید کشیدگی کی طرف ہی جائیں گے ؟ حکمران اتحاد نے پہلے مذاکرات کو سنجیدگی سے لیا ہے نہ آئندہ سنجیدگی سے لینے کا ارادہ رکھتے ہیں ،اس لیے ہی سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے بجائے مزید بڑھایا جارہا ہے ،ایک طرف سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں تو دوسری جانب مائنس ون کی باتیں کی جارہی ہیں ،نو مئی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،اس واقعے میں ملوث لوگوں کو کیف کرادر تک ضر ور پہچانا چاہئے ،مگر اس واقعہ کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا اور اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا درست نہیں ہیں ،اس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہی ہوں گے ، کیو نکہ اس سے قبل بھی جنہیں اپنے مفاد میں سیاسی دھارے سے باہر نکالا گیا بعدازاں انہیں ہی ہاتھ جوڑ کر واپس لانا پڑا ہے ۔
یہ ایک اچھی بات ہے کہ جو کام حکمراں اتحاد کو خود آگے بڑھتے ہوئے کرنا چاہئے ،اس کی جانب سپریم کورٹ توجہ دلارہی ہے ، موجودہ حالات سے نکلنے کاواحد راستہ مذاکرات میں ہی ہے ،لیکن حکمراں اتحادجان بوجھ کر انتخابات کرانے کے خوف کے باعث مذاکرات کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے ہیں ،حکومت مذاکرات کا آغاز کرنے کے بجائے اُلٹا سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف ہی جو ڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے ،سپریم کورٹ کے سامنے سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے ،اس سے حکمران اتحاد کی غیر سنجیدگی اور بدنیتی کا بخوبی پتہ چلتا ہے ، اگر اہل سیاست کا وطیرہ ایسا ہی رہا تو سپریم کورٹ اپنا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوجائے گی ،کیا حکمراں نااہلی چاہتے ہیں اور کیا انہیں نااہلی قابل قبول ہو گی ، حکمراں سیاسی شہید ہو نا چاہتے ہیں ، اس کے علاوہ انہیں کوئی محفوظ سیاسی راستہ نظر بھی نہیں آرہا ہے ،لیکن اس نا اہلی کا بیانیہ ملنے کے بعد ایک نیا بحران سر اُٹھا ئے گا،کیا اس کا ملک متحمل ہو سکتا ہے اور کیا اس فیصلے کے نتیجے میں انتخابات کا انعقاد اتنا آسان ہو گا ،جتنا کہ آسان سمجھا جارہا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکمران اتحاد کو نااہلی کا بیانیہ ملنے کے بعد انتخابات کا انعقاد آسان ہو گا نہ ہی انتخابات کے نتائج مانے جائیں گے ،اس لیے ہی عدالت عظمیٰ کی کوشش ہے کہ سیاسی معاملات کا کو ئی سیاسی حل ہی نکل آئے تو بہتر ہے ، سپریم کورٹ نے بال دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینک دی ہے ،لیکن اہل سیاست کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس بال سے کیسے کھیلا جائے ،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی تذبذب کا شکار ہیں ،حکومت کی14مئی سے پہلے والی پوزیشن ہے نہ اپوزیشن کی9 مئی سے پہلے والی پوزیشن رہی ہے ،دونوں ہی کمزور وکٹ پر آچکے ہیںاور دونوں کیلئے ہی مذاکرات کی بال کھیلنا آسان نہیں رہا ہے ،سپریم کورٹ بھی ایسا کوئی فیصلہ دینے سے گریزاں نظر آرہی ہے کہ جس کے بعد ساری ذمہ داری ہی عدالت عظمیٰ پر آن پڑے ،اس لیے کسی درمیانی راستے کی تلاش ہے ،یہ راستہ اہل سیاست ہی نکال سکتے ہیں ،لیکن وہ کو ئی راستہ نکالنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔
اس وقت ملک میں جو حالات چل رہے ہیں ،اس میں سیاسی قیادت کا کردار اب تک نہایت ہی غیر دانش مندانہ دکھائی دے رہا ہے، عوام مہنگائی بے روز گاری اور مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں اور اہل سیاست کو محاز آرائی سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے ،حکومت اور اپوزیشن میںجاری سیاسی کشمکش جلتی آگ پر تیل کا کام کررہی ہے،اس بھڑکتی آگ کے نتائج سب نے دیکھے ہیں ،اس پھیلتی آگ کومذکرات کے ٹھنڈے پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے، سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی کے بجائے باہمی مشاورت کے ذریعے ایک نئے میثاقِ جمہوریت کے بارے میں غور کرنا چاہیے، ملکی حالات قرادیں منظور کرنے ، پے در پے اپنے مفاد میں قانون سازی کرنے یابے جاطاقت کے استعمال سے کبھی بہتر نہیں ہوں گے،یہ صرف اسی صورت میں بہتر ہوں گے کہ جب سیاسی قیادت اپنے اختلافات بھلا کر اپنے سیاسی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو مقدم جانتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے مل بیٹھیے اور اس وقت تک اُٹھنے کا نام نہ لے کہ جب تک کوئی قابل قبول حل تلاش نہ کرلیا جائے ،اس میں ہی سب کی بہتری ہے ،بصورت دیگر بات سب کے ہی ہاتھ سے نکل جائے گی اور سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔