کابل: افغانستان میں تعلیم نسواں کے حوالے سے ملک گیر پیمانے پر درجہ ششم سے اوپر کی جماعتوں کی طالبات کے لیے لڑکیوں کے اسکول کھولنے پر غوروخوض شروع ہوگیا ۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے اکیڈمی آف سائنس آف افغانستان کے عہدیداروں نے بتایا کہ امارت اسلامیہ کے عہدیداروں سے جماعت چھ سے اوپر کی لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔ تنظیم کی سالانہ سرگرمیوں کی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کی اکیڈمی آف سائنس کے عہدیداروں نے کہاکہ سائنسی تحقیق کے کم از کم 46 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔
افغانستان کی اکیڈمی آف سائنس کے سیکرٹریٹ کے سربراہ رفیع اللہ نیازئی نے کہاکہ آپ نے جس مسئلے کا حوالہ دیا ہے وہ ایک عام مسئلہ ہے۔ امارت اسلامیہ اب اس مسئلے پر غور کر رہی ہے اور اس کے رہنمااس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیازئی نے کہا کہ یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں اٹھا ہے جب درجہ ششم تا دیازدہم کی طالبات کے لیے اسکول 680 دنوں سے زائد عرصے سے بند پڑے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کم از کم 100 تحقیقی منصوبے زیر عمل ہیں۔ سائنسی تحقیق کے بارے میں کم از کم 83 کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں۔
سائنسی تحقیق کے چھ سیمینار کیے جا چکے ہیں۔ مختلف شعبوں میں کم از کم 33 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ افغانستان کی اکیڈمی آف سائنس کے نائب سربراہ امیر جان ثاقب نے کہا کہ وہ ماہرین تعلیم جو ملک چھوڑ کر واپس آئے ہیں،ملک میں تعلیمی شعبوں کی استعداد کار کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ افغانستان کو بھی ماہرین تعلیم کی ضرورت ہے۔ ثاقب نے مزید کہاکہ اکیڈمی آف سائنس کے ملازمین جو امارت اسلامیہ کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہاں موجود تھے، آج بھی اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ہم ملک چھوڑنے والوں سے ملک واپس آنے کی پرزور اپیل کرتے ہیں۔اکیڈمی آف سائنس کے اعداد و شمار کے مطابق 14230کتابوں ، مضامین اور نصاب کا پشتو میں ترجمہ کیا جائے گا۔