نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کو ایران کے صدارتی انتخابات میں ان کی شاندار کامیابی پر انہیں مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام مبارکباد میں کہا کہ وہ ہندوستان اور ایران کے درمیان گرمجوشانہ تعلاقات میں مزید استحکام پیدا کرنے کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔ واضح ہو کہ ایران کے رہبر اعلیٰ روح اللہ علی خامنہ ای کے معمتد خاص ابراہیم رئیسی جو ملک کے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بھی ہیں دو روز قبل ہونے والے ایران کے صدارتی انتخابات میں زبردست اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ ابراہیم رئیسی اس سے پہلے بھی قسمت آزما چکے ہیں لیکن انہیں رخصت پذیر صدر حس روحانی کے خلاف کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔لیکن اس بار شورائے نگہبان نے جو چال چلی اس سے رئیسی کے آگے کوئی امیدوار ٹک ہی نہیں سکتا تھا۔اور ان کے منتخب ہو جانا یقینی تھا۔ جس کی وجہ سے اکثر ایرانیوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر مجبور ہیں جس میں فاتح امیدوار کا حکومت پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔اسی لیے ووٹروں میں کافی بد دلی پائی جا رہی تھی جس کے باعث سبکدوش صدرحسن روحانی نے اپنے ہم وطنوں سے اپیل کی کرنا پڑی تھی کہ وہ اپنے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرصدارتی انتخابات کے لیے پولنگ میں بھرپورانداز میں حصہ لیں۔
ایرانی ووٹر شورائے نگہبان کی جانب سے بعض معروف اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل کرنے کے فیصلے پر نالاں تھے۔ شورائے نگہبان نے سیکڑوں امیدواروں میں سے صرف سات کو صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل قراردیا تھا لیکن ان میں سے بھی تین امیدوار دستبردار ہوگئے تھے اور اس کے علاوہ رئیسیامریکی پابندیوں،بدانتظامی اور ارباب اقتدار کی بدعنوانیوں کے نتیجے میں گوناگوں معاشی مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔چناں چہ وہ پورے انتخابی عمل ہی پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔اس کا اندازہ 55 سالہ ایرانی خاتون فاطمہ کی گفتگو سے کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ”ووٹنگ میری ذہانت کی توہین ہوگی کیونکہ ابراہیم رئیسی کو تو حکومت پہلے ہی منتخب کرچکی ہے۔اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کس کے حق میں ووٹ ڈالوں۔“انھوں نے شناخت کے خوف سے اپناپورا نام نہیں بتایا۔خبر رساں ادارے اے یو ایس کی رپورٹ کے مطابق حسن روحانی نے صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل ایک نشری تقریر میں ایرانی ووٹروں سے مخاطب ہوکرکہا کہ” وہ کسی ایک ادارے یا گروپ کی کمیوں،کوتاہیوں کی وجہ سے ووٹنگ کے عمل سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں۔“ ان کا بظاہر اشارہ شورائے نگہبان کی جانب تھا۔انھوں نے کہا کہ ہمیں ووٹنگ پر اپنے تحفظات کو مقدم نہیں رکھنا چاہیے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی بدھ کو اپنے ہم وطنوں پر زوردیا تھا کہ وہ جمعہ کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھرپورحصہ لیں کیونکہ ان انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ اورایران پر بیرونی دباو¿ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ”اگر لوگ پولنگ کے عمل میں بھرپور طریقے سے شریک نہیں ہوتے ہیں تو دشمن کی جانب سے دباو¿ میں اضافہ ہوگا۔اگر ہم دباؤ اور پابندیوں میں کمی چاہتے ہیں تو لوگوں کی شرکت میں اضافہ ہونا چاہیے اور نظام کو حاصل عوامی مقبولیت دشمن پر ظاہرہونی چاہیے۔“خامنہ ای نے ایک نشری تقریر میں کہا کہ ”تمام ایرانیوں کواپنی سیاسی ترجیحات سے قطع نظرجمعہ کو اپنااپنا ووٹ ڈالنا چاہیے۔انھوں نے امریکی اوربرطانوی میڈیا پرالزام عاید کیا کہ ”وہ ایرانیوں کی ووٹنگ میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کررہا ہے اور صدارتی انتخابات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔“تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی قیادت کی اپیلوں کے باوجود صدارتی انتخابات میں ریکارڈ کم ٹرن آو¿ٹ متوقع ہے کیونکہ لوگ انتخابی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔صدارتی انتخاب میں اصل مقابلہ عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی اورمرکزی بنک کے سابق گورنرعبدالناصر ہمتی کے درمیان رہ گیا۔عبدالناصرہمتی کودوسرے صدارتی امیدواروں کے مقابلے میں”اعتدال پسند“ قراردیا جارہا تھا۔بعض اصلاح پسند گروپوں نے ہمتی کی حمایت کا اظہار کیا ۔ان دونوں کے علاوہ نمایاں صدارتی امیدوارایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ اور مصالحتی کونسل کے موجودہ سیکریٹری محسن رضائی تھے۔چوتھے صدارتی امیدوار رکن پارلیمان امیرحسین غازی زادہ ہاشمی تھے۔وہ نسبتاً کم زور سیاست دان خیال کیے جاتے ہیں اور مذکورہ تینوں امیدواروں کے مقابلے میں کوئی زیادہ معروف بھی نہیں تھا۔
