نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے مجاہد آزادی شہید بھگت سبگھ کو ان کی 113ویں سالگرہ پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شجاعت ، ہمت و حوصلہ کی ان کی داستان ملک کے لوگوںکو ہر زمانے میں جوش اور ترغیب دلاتی رہے گی۔وز یر اعظم نے ٹوئیٹ کیا ”ماں بھارت کے جانباز سپاہی امر شہید بھگت سنگھ کے یوم پیدائش پر انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت ۔ بہادری اور حوصلے کے ان کے قصے ملک کے لوگوں کو ہر زمانے میں ترغیب دیتے رہیں گے۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ٹوئیٹر کے توسط سے کہا کہ اپنے انقلابی خیالات اور بے مثال قربانی سے تحریک آزادی کو ایک نئی سمت دینے اور نوجوانان وطن میں آزادی کے عزم کی بیداری پیدا کرنے والے شہید بھگت سنگھ کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ خراج عقیدت۔ بھگت سنگھ جی تا حییات ہم سبھی ہم وطنوں کے لیے عزم و حوصلے کا وسیلہ بنے رہیں گے۔
واضح ہو کہ 28ستمبر بروز دو شنبہ شہید بھگت سنگھ کا 113واں یوم پیدائش ہے جسے بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے۔ان کی ولادت 28ستمبر1907کو غیر منقسم ہندوستان کے لائل پور ضلع کے بنگا میں ہوئی تھی۔یہ مقام اب پاکستان میں ہے۔ 23مارچ1931کو انہیں اسمبلی میں بم پھینکنے کے جرم میں اپنے ساتھیوں راج گورو اور سکھدیو کے ساتھ انگریزوں کی حکومت نے پھانسی چڑھا دیا تھا۔
وکی پیڈیا کے مطابق انہوں نے 1921 میں اسکول سے فارغ ہو کر نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927 میں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوئے اور شاہی قلعہ لاہور میں رکھے گئے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہو گئے۔ دہلی میں عین اس وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا انھوں نے اور بی کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔1928 میں سائمن کمیشن کی آمد پر لاہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائے زخمی ہو گئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقلاب پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر سائیکل پر دفتر سے نکلے تو شیو رام راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج ہاسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہو گئے۔
آخر خان بہادر شیخ عبد العزیز نے کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرہعدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا ۔
بھگت سنگھ، راج گورو اور سکھ دیو کو سزائے موت سنائی گئی اور 23 مارچ 1931 کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے ان کے آخری رسوم ادا کیے گئے۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔