لاہور: پنجاب میں حکمراں ُپاکستان تحریک انصاف پارٹی(پی ٹی آئی )اراکین صوبائی اسمبلی اور لال فیتا شاہی میں اختیارات کی جنگ پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے کسی غیر مترقبہ نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ اس رسہ کشی سے اس کو صوبے میں پی ٹی آئی حکومت بتدریج کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور اب اسے ملک کے اس سب سے بڑے صوبہ کی حکومت گرانے کے لیے صحیح وقت کی منتظرہے۔
پنجاب میں جب سے وزیر اعظم عمران خان نے انتظامی امور میں سیاسی مداخلت کو کم کرنے کے لیے ریٹائرڈ چیف سکریٹری میجر اعظم سلیمان،پولس اندسپکٹر جنرل شعیب دستگیر اور دیگر اعلیٰ بیورو کریٹس کو مکمل با اختیار بنایا ہے صوبہ کے حکومتی مسائل و معاملات وزیر اعظم کے لیے سر درد بن چکے ہیں۔
صوبہ کے جنوبی علاقوں کے20پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے بارے میں، جو عوامی فنڈ اور عوامی بہبود کے پراجکٹوں کی تقسیم اور اپنے متعلقہ حلقوں میں اپنی پسند کے پولس اور دیگر سرکاری اہلکاروں کے تبادلہ کے اختیارات چاہتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ یہ چال خود صوبائی وزیر اعلیٰ سردار اعثمان بزدار کی ہے جو بیورو کریسی کے افسران بالا کے پر قینچ کرنا اور خود کو ایک طاقتسور اور مضبوط چیف ایکزیکٹیو کے طورف پر منوانانا چاہتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے جب سے پنجاب میں عثمان بزدار حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے بزدار پہلے ہی کبھی بھی بااختیار وزیر اعلیٰ کے طور پر نظر نہیں آئے ۔اور بیورو کریسی کو صوبائیمعاملات میں با اختیار بنانے کے وزیر اعظم کے فیصلہ سے وہ مزید کمزور ہو رہے تھے۔یہی نہیں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی ہی نہیں بلکہ صوبائی گورنرچودھر ی سرور اورحکومت کی اصل اتحادی مسلم لیگ قائد کو بھی انتظامی امور میں اختیارات سے محروم رکھے جانے کا شکوہ ہے۔