پشاور (اے یو ایس )پاکستان کے چین اور بھارت کے ساتھ ملحقہ سیاحتی علاقے گلگت بلتستان میں متحارب مذہبی گروپوں کے درمیان کشیدگی کے بعد علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہے اور غِیر یقینی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے نیم فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔مذہبی رہنماﺅں اور اکابرین کے درمیان ایک مجوزہ آئینی ترمیمی بل پر اختلاف میں شدت آنے کے بعد علاقے میں کشیدگی کی صورتِ حال ہے اور کئی علاقوں میں ہڑتال کی سی صورتِ حال دیکھی گئی ہے۔گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کے سابق ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق اب تک حالات پر امن مگر متحارب مذہبی رہنماؤں اور اکابرین کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور الزامات کے نتیجے میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔
اسکردو کے سینئر صحافی رجب قمر کا کہنا ہے کہ شیعہ رہنماو¿ں کی اپیل پر گلگت بلتستان کے دوسرے اہم شہر اسکردو میں ہفتے کے روز مکمل ہڑتال کی گئی جس کے نتیجے میں روزمرہ کے معمولات شدید متاثر ہوئے۔حکومت نے کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے گلگت ، اسکردو اور چلاس میں ہفتے کو اسکاوٹس اور رینجرز کے دستے تعینات کر دیے ہیں۔گلگت کے سینئر صحافی اور مقامی اخبار پناہ کے ایڈیٹر فہیم اختر نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو مختلف علاقوں میں نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کی تصدیق کی۔رجب قمر، فیض اللہ فراق اور فہیم اختر کے مطابق فرقہ وارانہ کشیدگی اور غیر یقینی صورتِ حال کے باوجود گلگت بلتستان کے کسی بھی علاقے میں ہفتے کو کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا ہے تاہم علاقے میں صورتِ حال کشیدہ ہے۔
فہیم اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں باقاعدہ ہڑتال نہیں ہے مگر ہڑتال جیسی صورتِ حال ہے۔ زیادہ تر دکانیں اور کاروباری مراکز از خود بند ہونے کی وجہ سے لوگوں میں کافی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔سینئر صحافی رجب قمر کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے دوسرے بڑے اہم شہر اور سیاحتی مرکز اسکردو میں مکمل ہڑتال ہے۔برطانیہ اور امریکہ نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں اپنے اپنے شہریوں کو گلگت بلتستان جانے سے روک دیا ہے۔واضح رہے کہ اگست کے اوائل میں قومی اسمبلی میں توہینِ صحابہ ترمیمی بل کے پیش ہونے کے بعد گلگت بلتستان میں متحارب مذہبی گروپوں کے درمیان اختلافات شروع ہوئے تھے۔اس بل کی بعض شقوں پر تحفظات کا اظہار کرنے پر شیعہ عالم آغا باقر الحسینی کو نہ صرف سنی مکتبہ فکر کے علمائ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ چلاس ، دیامیر اور گلگت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور مطالبات کے دباو¿ میں آکر ان کے خلاف گلگت بلتستان حکومت نے توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ بھی درج کر دیا تھا۔