تیونس: (اے یو ایس)تونس کے سرکاری ٹیلی ویژن نے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں یا نمایندوں کو اپنی عمارتوں میں داخل ہونے اور اپنے ٹاک شوز میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔سرکاری ٹی وی کے اس فیصلہ کو پریس کی آزادی کے لیے شدید دھچکا قراردیا گیا ہے۔تونس کے پریس سنڈیکیٹ کے سربراہ مہدی جلاسی نے برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز کو منگل کے روز بتایا کہ صدرقیس سعیدکے جولائی میں تمام اختیارات پر قبضہ کرنے کے بعد سے سرکاری ٹی وی پر یہ واضح پابندی نافذ العمل ہے۔انھوں نے کہاکہ 2011 کے انقلاب کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اس طرح کی پابندی عائد کی گئی ہے۔اس عوامی انقلاب کے نتیجے میں سابق صدرزین العابدین بِن علی کی مطلق العنان حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا اور ملک میں جمہوریت متعارف کرائی گئی تھی۔
سرکاری حکام اورسرکاری ٹیلی ویژن کا کوئی عہدہ دار فوری طور پراس خبرپر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔جلاسی نے کہا: کہ 25 جولائی سے تمام جماعتوں کو ٹیلیویژن کی عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کا سیاسی فیصلہ کیاگیا ہے۔یہ ایک انتہائی خطرناک اور بے مثال معاملہ ہے۔اس سے پریس کی آزادی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔جولائی میں صدر قیس سعید نے حکومت کوبرطرف اور پارلیمان کومعطل کردیاتھا۔ان کا کہنا تھا سیاسی جماعتوں کے کئی سال کے جھگڑے اورپالیسی سازی میں تعطل کے بعد یہ ضروری اقدام تھا۔انھوں نے اگلے روز کہا کہ آئین کی تیاری کا کام شروع کردیا گیا ہے اور اس پرجون میں ریفرنڈم ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام آزادیوں اورحقوق کا احترام کرتے ہیں اورآمرنہیں بنیں گے۔
قیس سعید کی مداخلت کے بعد سے سرکاری ٹیلی ویڑن چینل الوطنیہ میں کسی سیاسی مہمان کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے۔پیر کے روزانھوں نے مقامی ذرائع ابلاغ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ”جھوٹ بولتے ہیں، نیوزبلیٹن کی طرح جھوٹ بولتے ہیں“۔گذشتہ ماہ الجزائری صدر کے ساتھ قیس سعید کی پریس کانفرنس میں بھی ایوان صدر کی جانب سے صرف ریاستی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا۔تاہم سرکاری خبر رساں ایجنسی ٹی اے پی اب بھی حکام پر تنقید کی کوریج کرتی ہے اور صدر کے سیاسی مخالفین کو جگہ دیتی ہے۔ الوطنیہ کے مرکزی نیوزبلیٹن میں قیس سعید کے خلاف مظاہروں کی کوریج کی جاتی ہے۔
