واشنگٹن: (اے یو ایس) امریکی وزیر خارجہ مائیک پوم پیو نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے پر ایران سے مذاکرات پھر شروع کرنے کی جو بائیڈن کے ایڈمنسٹریشن کی مساعی کو ناکام بنانے کے لیے ایران نے اپنی سرزمین پر القاعدہ کا نیا فعال ہیڈ کوارٹر کھلوا دیا۔ لیکن ایران اور بیشتر ماہرین اس کی تردید کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پوم پیو نے بھی اس ضمن میں حاصل نئی خفیہ معلومات کا حوالہ تو دیا لیکن اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ قبل ازیں باخبر ذرائع نے منگل کے روز انکشاف کیا ہے کہ مائیک پومپیو ایسی انٹیلی جنس معلومات سے پردہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا مقصد ایران کو علانیہ طور پر القاعدہ تنظیم کے ساتھ روابط رکھنے پر مورد الزام ٹھہرانا ہے۔
اس سے قبل پومپیو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر انکشاف کیا تھا کہ امریکا نے ان دستاویزات کو غیر مخفی کر دیا ہے جو اس بات سے متعلق ہیں کہ ایران نے 1978 سے 1987 کے درمیان “لیبیا اور چاڈ” کے بیچ جنگ کے دوران کیمیائی اسلحہ استعمال کیا اور اس کی تجارت بھی کی۔
امریکی وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا کہ اس نے مذکورہ جنگ کے دوران لیبیا کے سربراہ کرنل معمر قذافی کی حکومت کو کیمیائی اسلحہ فراہم کیا تھا۔
قذافی کی حکومت کے سقوط کے بعد ایسے کیمائی ہتھیاروں کا انکشاف ہوا تھا جن پر فارسی زبان تحریر تھی۔اسی طرح ایران پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے عراق کے ساتھ جنگ کے دوران اپریل 1987 میں بصرہ کے گرد علاقوں میں Mustard Gas کا استعمال کیا۔
امریکی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو 1991 میں عراق کے صوبے المثنی میں 88 ملی میٹر نالی کے کیمیائی مارٹر گولے ملے تھے۔ عراقی ذمے داران کا کہنا تھا کہ یہ ایرانی فوج کے ہیں۔متعدد امریکی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ تہران پر عائد پابندیوں کا سلسلہ نئے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ بھی جاری رہے گا۔