لکھنؤ:(اے یو ایس)اتر پردیش کے دارالخلافہ لکھنؤ کے بڑے امام باڑہ میں اس وقت ایک بڑا حادثہ ٹل گیا جب تسلسل سے ہونے والی موسلا دھار بارش سے امام باڑے کے داخلی گیٹ پر اوپر کی دیوار گر گئی ہے۔ اگرچہ حادثہ کے وقت کچھ لوگ، جو امام باڑے کی زیارت کے لیے آئے ہوئے تھے، موقع پر موجود تھے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ حادثے کے بعد کچھ دیر کے لیے موقع پر افراتفری کا ماحول رہا۔ فی الحال ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ دیوار کی مرمت کے لیے ایک ٹیم کو موقع پر بلایا گیا ہے۔ یہ حادثہ بڑے امام باڑہ میں واقع بھول بھلیاں کے داخلی گیٹ پر پیش آیا ہے۔
لکھنؤ کا یہ بڑا امام باڑہ جو آصفی امام باڑا سے بھی معروف ہے،نواب اودھ آصف الدولہ نے 1784 میں قحط سالی کے دوران قحط ریلیف پروجیکٹ کے تحت تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک بڑے گنبد والا ہال جو 50 میٹر لمبا اور 15 میٹر اونچا ہے۔اور نظامت امام باڑہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا امام باڑہ ہے۔ ایرانی تعمیراتی طرز کی یہ بہت بڑے گنبد والی عمارت امام حسین ابن علی کی شہادت کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے بنانے میں اس وقت 5 سے 10 لاکھ روپے خرچ آئے تھے۔ یہی نہیں اس عمارت کے مکمل ہونے کے بعد بھی نواب آصف الدولہ اس امام بارگاہ کی آرائش پر سالانہ 4 سے 5 لاکھ روپے خرچ کرتے تھے۔
عمارت کی چھت تک پہنچنے کے لیے 84 سیڑھیاں ہیں جو ایسے راستے سے گزرتی ہیں جو کسی انجان شخص کو اس طرح الجھا دیتی ہیں کہ ناپسندیدہ شخص اس میں بھٹکتا رہے اور وہ باہر نہیں نکل سکتا۔ اسی لیے اسے بھول بھولیاں بھی کہا جاتا ہے۔ عمارت کا ڈیزائن اور کاریگری بہتر شاندار ہے۔ عمارت میں ایسے جھروکے بنائے گئے ہیں جن سے مرکزی دروازے سے داخل ہونے والے ہر شخص کو دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ جھروکے میں بیٹھا شخص اسے نہیں دیکھ سکتا۔ دیواروں کو اس تکنیک سے بنایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سرگوشی میں بھی بات کرے تو وہ آواز دور سے بھی صاف سنائی دے سکتی ہے۔