اسلام آباد: ملک کی دو بڑی حزب اختلاف جماعتوں میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) اور سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات(خیبر پختونخوا) کی نمائندگی کرنے والے ایک آزاد رکن قومی اسمبلی نے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی سیکورٹی ایجنسی کی تحویل سے پر اسرار فرار پر حکومت سے وضاحت مانگی ہے۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ حقائق جاننا ایوان کا حق ہے اس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے یاپھر متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا۔تاکہ حقیقت کا علم ہو سکے۔احسان اللہ احسان کے فرار کا یہ معاملہ تحریک تحفظ پشتون کی حمایت سے آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داور نے قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ تحریک پر بولتے ہوئے اٹھایا اور پھر پی پی پی کے سید نوید قمر نے اس معاملہ کو اٹھایا اور اس معاملہ پر حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہو گیا اور حکومت نے اس کا ابھی تک کوئی نوٹس تک نہیں لیا اور نہ ہی احسان اللہ احسان کی تلاش کی ضرورت محسوس کی۔
لیکن یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ حزب اختلاف کے ان دو اراکین قومی اسمبلی نے یہ معاملہ اس وقت اٹھایا جب ایوان میں صرف دو وزراءہی موجود تھے اور انہوں نے بھی خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔بعد نماز مغرب جب یہ معاملہ اٹھایا گیاتو اسپیکر اور نائب اسپیکر کی عدم موجودگی کے باعث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی عمران خٹک اسپیکر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔مسٹر قمر نے پوچھا کہ آخر آپ کب تک اس معاملہ کو دبائے رکھیں گے۔
انہوں نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ قوم یہ بات جاننا چاہتی ہے کہ کیا حکومت نے کسی معاہدے کے تحت اسے رہا کیا ہے یا سیکورٹی ایجنسیوں کے چنگل سے فرار ہوا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ کیا امریکہ سے کوئی سودے بازی کی گئی ہے؟ پی پی پی رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ اس کو گرفتار کرنے کے بعد تو حکومت نے اس کی زبردست تشہیر کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک بین الاقوامی مجرم کو گرفتار کر لیا۔
انہوں نے اسے ایک سنگین معاملہ بتاتےہوئے کہا کہ اگر احسان اللہ انتہائی سخت پہرے اور زبردست حفاظتی حصار کو توڑ کر فرار ہو سکتا ہے تو اس سے چوکسی کا معیار بے نقاب ہو جاتا ہے کہ ہماری سیکورٹی ایجنسیاں کتنی چوکس اور مستعد ہیں۔