ڈاکٹر کلونت سنگھ ، برلن
برسہا برس سے پاکستان میں سکھ مت بہت زہادہ بلندیوں پر پہنچا اور اسے خوب فروغ حاصل ہوا اور بڑی کامیابیاں حاصل کیں پھر بھی پاکستان میں سکھوں پر جبرو استبداد اور ظلم و ستم ڈھانے کے حوالے سے بہت مچایا جاتا رہا ہے۔
گرودوارہ سچ کھنڈ صاحب گوردوارہ ا پہلی پاتشاہی شکارپور کے صدر سردار وکاش سنگھ کے کیے گئے کام سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ گوردوارے کی تزئین و آرائش اور نوتعمیر کا کام ایک طویل عرصے سے زوروں پر ہے اور توقع ہے کہ اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ شکار پور میں گوردوارہ سچ کھنڈ گوردوارا پہلی پاتشاہی کی نو تعمیر عمارت کے افتتاح کے لیے سندھ پہنچ جائیں گے ۔ لیکن صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے ہری سنگھ نلوا کا مجسمہ گرائے جانے کی حالیہ خبروں نے عالمی سطح پر سکھ برادری کے جذبات اور مذہبی اقدار کو مجروح کیا ہے۔ یہ مجسمہ 2017 میں پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے کامیاب ترین جنرل کے نام سے منسوب چوک پر نصب کیا گیا تھا۔
مجسمے کی تنصیب کے دوران یہ بلند و بالا دعوے کیے گئے تھے ملک میں کہ مذہب، سیاحت اور رواداری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ لیکن آج مجسمہ گرا کرجس چیز کو فروغ دیا گیا ہے وہ آج بھی سنگت کے لیے نا قابل فہم ہے ۔ایسے کام کرنے والے بھول رہے ہیں کہ تاریخ نہ بدلی جا سکتی ہے اور نہ ہی تبدیل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان جو سکھوں کی مساوات اور شمولیت کے فروغ کے لیے بڑے اقدامات کر رہا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ سکھوں کو اپنے گروؤں اور ان کی تعلیمات میں یقین کامل ہے ۔ ہری سنگھ نلوا کے ساتھ بھی، جو سکھ خالصہ فوج کے سپہ سالار اعظم تھے، ایسا ہی ہے۔ انہوں نے رنجیت سنگھ کی سلطنت کے قیام اور اس کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ انہوں نے کم از کم 20 بڑی اور تاریخی جنگوں میں حصہ لیا یا ان کی کمان سنبھالیہے۔ ان جنگوں میں سب سے زیادہ اہم قصور، سیالکوٹ، اٹک، ملتان، کشمیر، پشاور اور جمرود کی لڑائیاں تھیں جو ہری سنگھ نلوہ کی سپہ سالاری میں لڑی گئیں اور فتح حاصل کی۔
سکھ دور میں ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں جہاں سکھ حکمرانوں نے کوئی تعمیر کی ہو لیکن ہری سنگھ نلوا نے کم از کم 56 مختلف عمارتیں بشمول قلعے، گردوارے، باغات، حویلی اور سرائے تعمیر کی تھیں۔ لہٰذا حکومت پاکستان کو اس امر کو یقینی بنانے میں محتاط رہنا چاہئے کہ بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کی جانب ن کا ایک قدم آبادی کی طرف سے،خاص طور پر اس وقت جب سکھ قوم اقلیت میں ہو، شدید مذمت کا باعث بن سکتا ہے ۔ تزئین و تجدید کاری کے دوران شہریوں کے مذہبی اور ثقافتی جذبات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔