President Xi’s long game: World is dealing with a leader who believes he will shape a Chinese Centuryتصویر سوشل میڈیا

وجے گوکھلے

کوویڈ19-کے سائے میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران صدر چین شی جن پینگ چین کے عظیم رہنما بن گئے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کے جریدے کیوشی (سچائی کا متلاشی) کے15جولائی کے شمارے میں ایک اداریے میں کہا گیا ہے کہ” تمام چینیوں کا یہ عظیم فریضہ ہے کہ جنرل سکریٹری شی جن پینگ کی کلیدی حیثیت کا تحفظ کریں۔“ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی مکمل وضاحت کرنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا گیا کہ جنرل سکریٹری شی جن پینگ کی مرکزی حیثیت کے تحفظ کا مقصد صرف اور صرف شی جن پینگ ہے کوئی دوسرا فرد نہیں۔“۔مختصراً یہ کہ سوائے شی کے کوئی دوسرا ان کا ہمسر، دوسرا لیڈر اور طاقت کا مرکز نہیں ہے۔ماؤزے تنگ کے لیے ایک ایسی پارٹی پر، جس کی عملاً خود انہوں نے ہی تشکیل کی تھی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا تھا،غالب ہونے کے لیے برسوں لگ گئے۔پھر بھی اپنے اقتداد کے عروج میں وقتاً فوقتاً ان کا موازنہ لیو شاؤقی اور چاؤ ان لائی اور پیپلز لبریش آرمی کے مارشلوں ژو ڈی اور یی جیاننگ سے کیا جاتا رہا تھا۔ اس کے برعکس صدر شی جن پینگ 2013میں بر سر اقتدار آئے اور محض چھ سال میں پارٹی پر اپنا مکمل غلبہ حاصل کرنے میںکامیاب ہو گئے۔اور گذشتہ محض چھ ماہ کے ددوران وہ چین کے سپریلم لیڈر قرار دے دیے گئے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چونکہ پارٹی کو خدشہ تھا کہ انقلاب کے ایک اور معروف رہنما بو ژیلائی بڑے بننے کے خبط اور ماؤازم کی خطرناک خاصیت کا مظاہرہ کریں گے اس لیے2012میں شی پینگ کو جنرل سکریٹری منتخب کر لیا گیا۔شی نے اپنے اندر ایسی کوئی خاصیت ہونے کا اشارہ نہیں دیا تھا۔بو ژلائی وجیہہ ،متحرک،شعلہ بیان اور میڈیا دوست شخصیت کے مالک تھے ۔ جبکہ ان کے برعکس شی وضع قطع، لباس ، طور طریق و برتاؤ می کے حوالے سے بہت سادہ اور معمولی تھے ۔اگر اس کے لیے ایک لفظ استعمال کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ غیر متاثر کن تھے۔یہ موازنہ اس معنی میں نہایت اہم ہے کہ اس بات کی تعریف کی جائے کہ وہ کس طرح کسی کے لیے بھی کوئی خطرہ بنے بغیر ایسے اعلیٰ مقام تک پہنچ گئے۔جو ان سے2012سے پہلے تک ان کے ظاہر ی رکھ رکھاؤ اور طور طریق سے انہیں پرکھتے تھے آج بھی اسی وجہ سے وہ ابھی تک ان کے حوالے سے غلط اندازے لگاتے ہیں۔اگست 2000میں ایک چینی جریدے کو ان کے غیر معمولی انٹرویو میں ان کی تین خوبیوں استقامت، صبر اور خود پر کامل یقین کا علم ہوا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ سیاست ایک پر خطر کام ہے اور وہ لمبا کھیل کھیل رہے تھے۔ان کے اپنے الفاظ میں ”آپ ایک بار سیاست میں آگئے تو یہ دریا پار کرنے جیسا ہے۔اس کی کوئی فکر نہیں کہ راستے میں کتنی رکاوٹیں آئیں گی بس ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ صرف آگے دیکھتے رہو۔ “ وہ راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ سے نہیں گھبرائے۔اگرآپ کی کوئی حیثیت ہے تو آپ اس سے چمٹے رہیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔پھر آگے چل کر اس کے فائدے ہونے لگیں گے۔

گذشتہ سات سال میں صدر شی جن پینگ نے بڑے منظم انداز سے اپنی سیاسی حریفوں کو گرفتاریوں اور مقدمات سے خاموش کر دیا۔ان میں سون شینگ کائی بھی، جنہیں ان کا جانشین سمجھا جاتا تھا،شامل تھے۔انسدا بدعنوانی مہم سے خوف و دہشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ صدر شی نے اپنے دو پیشروؤں کے خیموں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں عہدیداروں کو ہٹا کر تمام چھوٹے بڑے افسروں کا احتساب کرنے کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کر دیا۔ صدر شی جن پینگ کو 2023کے بعد تک بر سر اقتدار رہنے کے لیے مارچ2018میں چینی صدر کی دو میعاد کی حد آئین سے حذف کر دی گئی ۔صدر شی نے ملک کی فوج پر بھی اپنا شکنجہ کس لیا۔ پیپلا آرمڈ پولس (پی اے پی) کو براہ راست اپنے اختیار میں لے لیا ۔ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی بھی اسی طرح تطہیر کر دی گئی۔ جنرل ژانگ یانگ اور جنرل فانگ فنگوئی جیسے کچھ اعلیٰ منصبی بر سر ملازمت فوجی افسران 2017میں ہی ہٹا دیے گئے۔صدر شی نے 2016میں پی ایل اے کے کمانڈر انچیف کا عہدہ ، جسے اعلیٰ فوجی کمان کا قابل ذکر تجربہ رکھنے کے باوجودماو¿ بھی نہ سنبھال سکے، بھی سنبھال لیا ۔2017اور2018میں آئینی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے بالترتیب پارٹی اور ملکی آئین میں ”شی جن پنگ سوچ“ لکھی گئی۔

ماؤ کے بعد کسی لیڈر نے ایسی کوشش نہیں کی تھی۔ڈینگ کے کیس میں بعد از مرگ کیا گیا تھا۔پارٹی نے ”نئے دور “ کے آغاز کا اعلان کیا جو شی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔غرضیکہ شی جن پینگ نے ہر قسم کے اچھے برے اور نامساعد اور ناگفتہ بہ حالات پر بھی قابو پایا اور آج دنیا ماؤ کے بعد ایک ایسے چینی لیڈر سے نمٹ رہی ہے جو اپنی ذہانت و فراست سے یہان تک پہنچا ہے اور اپنے اندر یقین رکھتا ہے کہ وہ 21ویں صدی کو چینی صدی سے مبدل کر دے گا۔جولائی2021میں پارٹی اپنا صد سالہ جشن تاسیس منا رہی ہے شی جن پینگ پہلے 100سال کے لیڈر ماو¿زے تنگ کی طرح خود کو دوسرے 100سال کا ہیرو قرار دلوانا چاہتے ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنئیا کو ابھی شی جن پینگ کو اور جھیلنا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *