حیدرآباد: (اردو تہذیب ڈاٹ کام )مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے مرکز برائے مطالعاتِ اردو ثقافت و نظامت ترجمہ و اشاعت کے ڈائرکٹر پروفیسر محمدظفر الدین کو، جو دوشنبہ کی صبح دل کا شدید دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے تھے،سپرد خاک کر دیا گیا۔ان کی نماز جنازہ آج بروز منگل بعد نمازِ فجر، مسجد قبا ، نانل نگرروڈ، قادر باغ میں ادا کی گئی اور تدفین حضرت کمال اللہ شاہؒ کی درگاہ سے متصل قبرستان ، نمبولی اڈہ، حیدرآباد میں عمل میں آئی۔
قبل ازیں پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج اور پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے مرحوم کے گھر پہنچ کر ان کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اور ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس سلسلہ میں یونیورسٹی میں ایک آن لائن تعزیتی نشست منعقد ہوئی۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے کہا کہ مرحوم اصولوں کے پابند تھے۔ اپنا کام پوری محنت و ایمانداری سے کرتے تھے۔ پروفیسر ظفر الدین کسی بھی کام کو جلد بازی سے نہیں بلکہ بہتر اور سلجھے ہوئے انداز میں کیا کرتے تھے۔ وہ سب سے خلوص و محبت سے ملا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے موقعوں پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود نے یونیورسٹی اور شیخ لجامعہ کی جانب سے قراردادِ تعزیت پیش اور مرحوم کو خراج ادا کیا۔ اس موقع پر پروفیسر پی فضل الرحمن نے کہا کہ ابتدائی ایام میں یونیورسٹی کی تشہیر کے لیے مرحوم نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ پروفیسر قاضی ضیا اللہ (بنگلور)، پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی اور پروفیسر علیم اشرف جائسی نے بھی اظہار خیال کیا۔
پروفیسر فہیم اختر نے دعائے مغفرت کی۔ پروفیسر سنیم فاطمہ اور جناب ایم جی گنا شیکھرن بھی موجود تھے۔ حافظ سمیع اللہ کی قرا ت سے نشست کا آغاز ہوا تھا۔ ڈاکٹر ظفر کے سانحہ انتقال پر ملک کی کئی دیگر اردو شخصیات نے بھی صدمہ اور پسماندگان سے اظہار تعزیت و ہمدردی کیا۔ پرو فیسر شارب ردولوی نے کہا کہ ظفرالدین کا انتقال ادب و تحقیق ترجمہ و ادبی صحافت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ڈاکٹر خاں احمد فاروق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ظفر بھائی بہت محبت کرنے والے انسان تھے۔ ریشما پروین نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آہ ظفر بھائی! ایسے بھی کوئی جاتا ہے ۔ پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ ظفرالدین اردو یونیورسٹی کے ایک اہم ستون تھے۔ ڈاکٹر امام اعظم کا کہنا تھا کہ ظفرالدین صاحب بے حد مشفق اور نرم خو انسان تھے۔ ڈاکٹر مسیح الدین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ موت سے بچنے کی ایک ترکیب ہے ، دوسروں کے ذہن میں زندہ رہو۔ رشدہ شاہین نے ظفر صاحب کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا آہ ظفر صاحب : میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ڈاکٹر اشرف علی نے کہا کہ ’ پروفیسر ظفر الدین مشفق انسان اور مہربان دوستاں کے مشیر خاص تھے۔
نیا دور کے سابق ایڈیٹر عاصم رضا کا کہنا تھا کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ڈاکٹر احمد امتیاز نے کہا کہ ظفر بھائی کی اپنی دنیا تھی۔ علی ظفر نے کہا کہ آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔ ڈاکٹر طارق نے ظفر الدین صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ظفر صاحب ایک عمدہ صحافی تھے۔ ڈاکٹر کہکشاں لطیف نے مرحوم پروفیسر ظفر الدین کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفتر چاہئے ان کے اوصاف بیان کرنے کےلئے۔ فاروق بخشی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ وہ تو بتارہا تھا کئی روز کا سفر ۔۔ آہ ظفرالدین ۔ واضح ہو کہ ان کا شمار یونیورسٹی کے اولین رفقائے کار میں کیا جاتا تھا۔ظفر 55 سال کے تھے۔ لواحقین میں اہلیہ ڈاکٹر مسرت جہاں، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو، مانو کے علاوہ دو فرزندان شبیہہ ظفر اور فرقان ظفر اور ایک دختر شامل ہیں۔ان کے برادر خورد شہزاد انجم ،جن کا اپنے شفیق بھائی کے اچانک انتقال پر رو رو کر برا حال ہے ،جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔پروفیسر ظفر الدین مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے بحیثیت اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر 16 مارچ 1998 کو وابستہ ہوئے۔ 13 ستمبر 2004 کو بحیثیت ریڈر ٹرانسلیشن ڈویژن ان کا تقرر ہوا۔ 4 مارچ 2008 کو وہ شعبہ ترجمہ میں بحیثیت پروفیسر ان کا تقرر عمل میں آیا۔
انہیں یونیورسٹی کا اولین پراکٹر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بحیثیت ڈین اسکول آف لینگویجس اور صدر شعبہ ترجمہ بھی خدمات انجام دیں۔ تاحال وہ یونیورسٹی کے مجلس انتظامی اور مجلس تعلیمی کے رکن بھی تھے۔ اس سے قبل وہ دہلی سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ قومی آواز سے وابستہ تھے۔ اور وہاں بھی بہت کم عمری اور مختصر مدت میں ترقی کی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے خوش نویس سے سب ایڈیٹر اور سینیئر رپورٹر کے عہدے تک پہنچے تھے۔ ان کے دہلی مقیم دیرینہ رفیق و قومی آواز کے ساتھی محمد احمد نے کہا کہ انہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ ظفر اس دار فانی سے کوچ کر گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے لیکن ظفر اتنی جلدی داعی اجل کو لبیک کہہ دے گا اس کا تو تصور بھی نہیں کیا تھا۔محمد احمد نے مزید کہا کہ ظفر نے بہت کم عمری اور نہایت مختصر مدت میں ترقی کی کئی منزلیں طے کر لی تھیں۔ نہایت درجہ مخیر تھے اور وہ اپنے رشتہ داروں کا دامے درمے سخنے غرض ہر طرح سے ان کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز فرمائے۔
