اسلام آباد : (اے یو ایس ) دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہوجانے والے پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ اور ان کی ٹیم کی تلاش کے لیے دوشنبہ کو نہایت خراب موسم کے باوجود ایک بار پھر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے لیکن اس دوران تیز و تند اور یخ بستہ سرد جھونکوں کے باعث تلاش کوششیں محدود ہو کر رہ گئیں۔
علی سد پارہ اور ان کی ٹیم کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہے۔ جس کے بعد گزشتہ روز آرمی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سات ہزار میٹر کی بلندی تک لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ جس میں خراب موسم اور تیز ہواؤں کے سبب مشکلات پیش آئیں۔کے ٹو کے بیس کیمپ میں موجود ‘سیون سمٹ انٹرنیشنل ایکسپیڈیشن’ کے سربراہ چنگ داوا شرپا جو کہ خود بیس کیمپ پر موجود ہیں، کا ایک ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ ، علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کی ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ تلاش جاری رکھی جائے گی ۔
پاکستانی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ علی سدپارہ اور ان کی ٹیم کے ٹو سر کر چکی ہے۔ تاہم رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خبر کی تصدیق ابھی تک سرکاری سطح پر نہیں ہوئی ہے۔تاہم سدپارہ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ہفتے کو پاکستانی وقت کے مطابق چھ بج کر تیس منٹ پر کی گئی ایک ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ “ہم ابھی تک تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کے منتظر ہیں۔دسمبر کے وسط میں لگ بھگ 18 ممالک سے تعلق رکھنے والے 60 کوہ پیماؤں نے موسم سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کے لیے پاکستان میں ڈیرے ڈالے تھے۔
گزشتہ ماہ 16 جنوری کو 10 نیپالی کوہ پیماؤں نے نرمل پرجا کی قیادت میں تاریخ رقم کی اور پہلی مرتبہ موسمِ سرما میں کے ٹو کو سر کیا۔ جس کے بعد پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سد پارہ کے ہمراہ ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن موسم کی خرابی کے باعث انہیں بیس کیمپ میں واپس آنا پڑا۔گزشتہ ہفتے ساجد علی سد پارہ اور علی سد پارہ اپنے دیگر ٹیم ممبرز کے ہمراہ دوبارہ مشن پر روانہ ہوئے۔‘الپائن کلب آف پاکستان’ کے سیکریٹری کرار حیدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے اونچائی پر مدد فراہم کرنے والے پورٹرز کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹرز بھی ریسکیو مشن میں شریک ہیں۔
کرار حیدری کے مطابق اب تک کی معلومات کے مطابق ا?ٹھ ہزار میٹر کے فاصلے تک یہ سب ایک ساتھ تھے۔ اس کے بعد ان کے بقول ساجد علی سدپارہ کے آکسیجن گیئر میں کچھ مسئلہ پیدا ہو گیا۔ جس کے بعد وہ بحفاظت نیچے اترنے میں کامیاب ہوئے۔یاد رہے کہ کے ٹو کو سر کرنے کے لیے دیگر دشواریوں کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں کو تیز ہواؤں اور منفی 65 سینٹی گریڈ تک درجہ? حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کرار حیدری کے مطابق اس بات کے شواہد ابھی تک نہیں ملے ہیں کہ آیا تینوں لاپتا کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سر کیا ہے یا نہیں۔ کیوں کہ ان کے بقول انہیں خدشہ ہے کہ کوہ پیماؤں کی فون بیٹریوں میں چارجنگ ختم ہو گئی تھی۔
کرار کے مطابق اس وقت ایک غیر یقینی کی صورتِ حال ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کسی معجزے کی ہی امید رکھی جا سکتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ آنے والے دنوں میں موسم مزید خراب رہنے کی پیشن گوئی ہے۔الپائن کلب کے سیکریٹری کے مطابق کے ٹو کو سر کرنے کی مہم میں اس وقت بیس کیمپ پر تقریباً 30 کے قریب کوہ پیما موجود ہیں۔پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اپنے بیٹے ساجد سدپارہ کے ہمراہ۔ خیال رہے کہ کے ٹو کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر ہر چار کوہ پیماؤں میں سے ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سر کرنے کی کوشش میں اب تک 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ اٹانس اسکاٹوو گر کر ہلاک ہوئے تھے۔ان کی ہلاکت بیس کیمپ کی جانب رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی تھی۔ اس سے قبل اسی مشن سے منسلک ہسپانوی کوہ پیما بھی ہلاک ہوئے تھے۔اس وقت پاکستان میں ٹوئٹر پر علی سدپارہ اور ا±ن کے ساتھیوں کے لاپتا ہونے کا معاملہ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور ا±ن کی بحفاظت واپسی کے لیے دعاو¿ں پر مبنی ٹوئٹس کی جا رہی ہیں۔چیئرمین ہارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر شہریار آفریدی کا ٹوئٹ میں کہنا ہے کہ ہمارے ہیرو سد پارہ کے لیے پوری قوم دعا گوہ ہے۔