Sad demise of Shamsur Rehman Farooqui: Urdu litrature lost a bright starفائل فوٹو

سہیل انجم

شمس الرحمن فاروقی کا ادبی قد بہت بلند تھا۔ وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ عام طور پر کوئی نقاد کی حیثیت سے مشہور ہوتا ہے تو کوئی تخلیق کار کی حیثیت سے۔ کوئی فکشن رائٹر کی حیثیت سے تو کوئی شاعر کی حیثیت سے۔ کوئی عروض داں کی حیثیت سے تو کوئی ترجمہ نگار کی حیثیت سے۔ لیکن شمس الرحمن فاروقی ان تمام اصناف اور شعبوں میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ انھوں نے شاعری بھی کی۔ افسانہ نگاری اور ناول نویسی بھی کی۔ تنقید کے میدان میں بھی انھوں نے اپنے جوہر دکھائے اور تخلیق کے میدان میں بھی۔ انھو ںنے ترجمہ لگاری بھی کی۔ وہ عروض داں بھی تھے۔ انھوں نے اپنی ایک زندگی میں کئی زندگیوں کے برابر کام کیا۔ یو ںتو شمس الرحمن فاروقی کے متعدد ادبی کارنامے ہیں لیکن ان کارناموں میں ایک نمایاں کارنامہ داستان کو عہد حاضر میں زندہ کرنا بھی ہے۔ منشی نول کشور پریس لکھنو¿ سے جہازی سائز میں شائع ہونے والی داستان امیر حمزہ 46 جلدو ںمیں ہے اور ایک ایک جلد کم و بیش گیارہ بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔

فاروقی صاحب نے پانچ جلدوں میں اس داستان کی تنقید لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام ”ساحری، شاہی، صاحبقرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ“ ہے۔ اس کی چار جلدیں حکومت کے ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع ہوئیں اور پانچویں جلد ابھی نومبر میں دہلی کے ایم آر پبلی کیشن سے شائع ہوئی ہے۔ فاروقی صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ انھوں نے اس پوری داستان کو لفظ بہ لفظ پڑھا جو کہ تقریباً 50 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور یہ بتایا کہ داستان کو کیسے پڑھنا چاہیے۔ انھوں نے تین جلدوں میں داستان کے اصول بیان کیے ہیں اور دو جلدوں میں داستان کے کرداروں اور مکالمو ں کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ واقعات اور اس کی متخیلہ کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ انھوں نے ان کے نظریاتی اصول بیان کیے ہیں۔ انھوں نے 46 جلدوں میں سے صرف دس داستانوں کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اب ان کے پاس طاقت نہیں ہے ورنہ اگر یہ کام ہوتا رہتا تو آٹھ دس جلدیں اور تیار ہوجاتیں۔ فاروقی صاحب نے اپنے بھتیجے اور ماہنامہ آجکل کے سابق مدیر محبوب الرحمن فاروقی مرحوم کے فرزند محمود فاروقی کو داستان گوئی کی طرف مائل کیا اور محمود فاروقی نے داستان گوئی میں پوری اردو دنیا میں اپنا نام پیدا کر لیا۔ اس کے بعد آج متعدد داستان گو پیدا ہو گئے ہیں۔

ادبی دنیا میں یہ رائے بن گئی تھی کہ داستان کی ترقیاتی شکل ناول ہے۔ لیکن فاروقی صاحب نے کہا کہ اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ انھوں نے پہلی بار بتایا کہ داستان زبانی سنانے والا بیانیہ ہے اور ناول تحریری بیانیہ ہے۔ داستان اور ناول میں بنیادی فرق ہے۔ دونوں کے تقاضے اور خصوصیات الگ الگ ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے داستان گوئی کو ایسے وقت میں دوبارہ زندہ کیا جب یہ متروک صنف سمجھی جانے لگی تھی۔شمس الرحمن فاروقی کا ایک معرکة آرا کام ”شعر شور انگیز“ ہے۔ میر کو رونے دھونے والا شاعر سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ وہ غم و الم کے شاعر ہیں۔ میر کو سو سال تک یہی مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن فاروقی صاحب نے مذکورہ کتاب سے میر کے مروجہ امیج کو توڑا اور کہا کہ میر رنج و غم کے شاعر نہیں بلکہ کثیر الجہات شاعر ہیں اور ان کے یہاں زندگی، کائنات اور انسانی تجربات کے اتنے رنگ ہیں کہ اتنے کسی اور شاعر کے یہاں ہیں ہی نہیں۔فاروقی صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمارے کلاسیکی شعرا کو ان شعریات کی روشنی میں نہیں پڑھا گیا جن شعریات پر انھوں نے شاعری کی۔ لہٰذا انھوں نے میر کی شعریات کے اصول بیان کیے۔ شعر شور انگیز چار جلدوں میں ہے اور ایک ایک جلد چار سو پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر دو ہزار سے زائد صفحات ہیں جنھیں قومی کونسل برائے اردو زبان نے جو کہ اس وقت اردو بیورو کے نام سے تھی، شائع کیا۔

فاروقی صاحب نے میر کے 14000 اشعار میں سے صرف 1250 اشعار منتخب کرکے ان کی شرح کی ہے۔ اس کی پہلی جلد 1990 میں آئی تھی۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ہر جلد کے شروع کے دو ڈھائی سو صفحات میں شعریات بیان کی ہیں۔

شمس الرحمن فاروقی نے غالب پر بھی ایک بڑا کام کیا ہے۔ انھوں نے کلام غالب میں وہ معنی نکالے ہیں جن پر شارحین غالب کی نظر نہیں گئی تھی۔ انھو ںنے 137 اشعار کی شرح کی ہے جو کہ ”تفہیم غالب“ کے نام سے غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے بھی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے نام سے اور فرضی ناموں سے بھی افسانے بھی لکھے جو کافی مقبول ہوئے۔ انھوں نے ناول نگاری بھی کی۔ ان کا ناول ”کئی چاند تھے سر آسماں“ شہرہ آفاق حیثیت رکھتا ہے۔ تقریباً 900 صفحات پر مشتمل یہ ناول اردو کے کلاسیکی شاعر داغ کی والدہ وزیرہ خانم کو مرکز میں رکھ کر لکھا گیا ہے۔ راقم الحروف نے جب اس کو پڑھنا شروع کیا تو اس کے سحر میں کھو گیا۔ اس کی زبان انتہائی شاندار اور پرکشش ہے۔ یہ ناول سب سے پہلے پاکستان میں اور اس کے بعد ہندوستان میں شائع ہوا۔ اس کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں کہ ”اٹھارویں صدی کے راجپوتانے سے شروع ہونے والی اور ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ بعد دلی کے لال قلعے میں ختم ہونے والی یہ داستان ہندوستانی فنکار کی روح کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کرنے کے علاوہ ہند اسلامی تہذیب، ادبی معاشرہ، انگریزی سیاست او راس کی وجہ سے تہذیب اور تاریخ کے بدلتے پیکر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔“ اس ناول کے ذریعے قدیم ادبی تہذیب و تاریخ اور دہلی کا پورا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ اس وقت کے ادبی مذاق، سیاسی خیالات اور انگریزوں کے ساتھ مسلمانوں کی نفسیات کیا تھیں یہ سب چیزیں اس میں پیش کر دی گئی ہیں۔ اس ناول کے کردار جہاں جہاں اور جس جس عہد سے گزرتے ہیں وہاں وہی زبان استعمال کی گئی ہے جو اس وقت اور ان علاقوں میں رائج تھی۔ انجمن ترقی اردو کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں ”ارمغان فاروقی“ نام سے ایک کتاب 2019 میں شائع کی گئی تھی۔ یہ کتاب اردو اور انگریزی دو زبانوں میں ہے اور تقریباً 700 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے اردو ادیبوں نے اردو میں اور مغربی ادیبوں نے انگریزی میں فاروقی صاحب پر مضامین لکھے ہیں۔

فاروقی صاحب کی ہمہ جہت اور منفرد علمی و ادبی خدمات کے پیش نظر اگر ان کو نابغہ روزگار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ایسی شخصیات مدتوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ ان کو جدید نقاد کہا جاتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کا تعلق نہ صرف جدید ادب و تنقید سے تھا بلکہ کلاسیکی ادب و شعر پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔شمس الرحمن فاروقی کا ذکر ہو اور ماہنامہ شب خون کا ذکر نہ آئے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ انھوں نے تقریباً نصف صدی تک اس کے ذریعے جدیدیت کی آبیاری کی۔ انھیں جدیدت کا امام کہا جاتا تھا۔ اگر چہ اس رسالے پر بحیثیت مدیر ان کا نام نہیں جاتا تھا لیکن پوری اردو دنیا جانتی تھی کہ وہ فاروقی صاحب ہی کے قلم کا کرشمہ ہے۔ انھوں نے جس طرح ایک رسالے کی مدد سے ایک نظریے کی پرورش و پرداخت کی اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ فاروقی صاحب نے علم عروض کے میدان میں بھی کام کیا اور ”عروض آہنگ او ربیان“ نامی کتاب کے ذریعے انھوں نے عروض کے علم کو عام کیا۔ انھوں نے ترجمے کا بھی کام کیا۔ جب ان کے ناول کئی چاند تھے سرآسماں کا انگریزی میں ترجمہ شروع ہوا اور بات نہیں بن پا رہی تھی تو انھوں نے خود ہی اس کا انگریزی میں ترجمہ کر دیا۔ اس کا ترجمہ ہندی میں بھی کیا گیا ہے۔ بالی ووڈ اداکار عرفان خان نے اس پر ایک فلم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ فاروقی صاحب نے اجازت بھی دے دی تھی مگر عرفان کی زندگی نے ان سے وفا نہیں کی اور یہ کام رہ گیا۔ اس کے علاوہ فاروقی نے ابن صفی کے چار ناولوں کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ شمس الرحمن فاروقی ایک شاعر بھی تھے۔ ان کا کلیات بھی جو کہ سات آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے، شائع ہوا ہے۔ فاروقی صاحب کا میدان اردو ادب نہیں تھا۔ وہ سول سروینٹ تھے اور انگریزی داں تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے اس قدر وقیع ادبی کام کرنے کے لیے وقت نکالا اور اتنا اور اچھوتا کام کر دیا جو کہ ادارے نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں حکومت ہند نے اعلیٰ سول اعزاز پدم شری سے نوازا تھا۔ انھیں پاکستان نے ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا۔ انھیں سرسوتی سمان اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا تھا۔ ان کا اٹھ جانا اردو ادب کے لیے ایک ایسا خسارہ ہے جس کا عرصے تک پر ہونا ممکن نہیں ہے۔ایک ماہ قبل جب وہ کووڈ۔19 میں مبتلا ہوئے تھے اور انھیں دہلی کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تو اس وقت ادبی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔ سب کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے تھے۔ دعاو¿ں نے اپنا اثر بھی دکھایا۔ وہ رو بہ صحت ہو گئے۔ لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن کیا خبر تھی کہ کوویڈ19- نے ان کی صحت پر جو منفی اثرات مرتب کیے ہیں وہ یوں ہی نہیں جائیں گے بلکہ ان کی جان لے کر چھوڑیں گے۔

دسمبر کی 25 تاریخ کو جب دنیا کرسمس کا تہوار منا رہی تھی، ان کے اصرار پر انھیں ایئر ایمبولینس سے دہلی سے الہ آباد لے جایا گیا۔ وہاں پہنچنے کے نصف گھنٹے بعد ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔ اس طرح سال 2020 جاتے جاتے اردو ادب کی ایک عہد ساز شخصیت کو دنیا سے چھین لے گیا۔ رواں سال جاتے جاتے ایک اور ادیب، نقاد اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق استاد پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ 29 دسمبر کو دوپہر کے وقت ان کا انتقال ہو گیا۔شمس الرحمن فاروقی کا آبائی وطن اعظم گڑھ تھا۔ وہ 30 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے تھے۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھ پور سے گریجویشن کرنے کے بعد انھو ںنے الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انھو ںنے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں الہ آباد ان کا وطن ثانی بن گیا۔ الہ آباد جو کہ پہلے اکبر الہ آبادی اور امرودوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھا اب اس کی شہرت کی ایک وجہ شمس الرحمن فاروقی بھی ہو گئے۔ الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے 1957 میں سول سروس کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ انھیں محکمہ پوسٹل سروس میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ لیکن ان کی وجہ شہرت سول سروس یا پوسٹ ماسٹر جنرل کا اعلیٰ منصب نہیں ہے بلکہ ان کی وہ ادبی خدمات ہیں جو انھوں نے انجام دیں اور جو اس وقت تک زندہ رہیں گی جب تک کہ اردو زندہ رہے گی اور جب تک اردو زندہ رہے گی فاروقی کا نام بھی زندہ رہے گا۔
(پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر احمد محفوظ، ڈاکٹر اطہر فاروقی، شکیل رشید، ندیم صدیقی اور قمر صدیقی سے گفتگو پر مبنی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *