اسلام آباد (اے یو ایس ) موسم سرما میں کے-2 کی چوٹی سرکرنے کی کوشش کے دوران لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو مہر کی موت کی سرکاری طور پر تصدیق کردی گئی۔لاپتا کوہ پیماو¿ں کی موت کی تصدیق گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجا ناصر علی خان نے ساجد سد پارہ اور دیگر کوہ پیماؤں کے اہلِ خانہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کیا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ محمد علی سدپارہ اور دیگر کوہ پیماﺅں کی لاش مل گئی ہے یا نہیں؟
یاد رہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر سے اس وقت رابطہ منقطع ہوگیا تھا جب انہوں نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔پریس کانفرنس کے دوران علی سد پارہ کے بیٹے نے کہا کہ مجھے اور کئی انٹرنیشنل کوہ پیماوں کو یقین ہے کہ انھیں کے ٹو سر کرنے کے بعد واپسی پر حادثہ پیش آیا اور جس بلندی پر ممکنہ حادثہ ہوا تھا وہاں چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خاندان، پوری پاکستانی قوم اور ہمارے کوہ پیما دوست مسلسل صدمے اور تکلیف کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی قوم کی محبت میرے خاندان کے لیے انتہائی حوصلے اور ہمت کا باعث بنا، میرا خاندان انتہائی شفیق باپ سے محروم ہوگیا ہے۔ساجد سدپارہ نے مزید کہا کہ پاکستانی قوم سبز ہلالی پرچم سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے محب وطن قومی ہیرو سے اور دنیا ایک بہادر اور با صلاحیت مہم جو سے محروم ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ دکھ اور غم کی اس گھڑی میں ہم سب ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں گے، میں اپنے والد کے مشن کو جاری رکھوں گا اور ان کے ادھورے خواب پورے کروں گا۔
ساجد سد پارہ نے بتایا کہ علی سدپارہ نے انتھک محنت، بہادری اور ہنر مندی سے 8 ہزار میٹر سے بلند 8 چوٹیاں سر کیں۔ساجد سد پارہ نے کہا کہ ان کے والد نے نہ صرف ننگا پربت کو پہلی بار سردیوں میں سر کر کے ورلڈ ریکارڈ بنایا بلکہ انہیں ننگا پربت کو چاروں موسموں میں سر کرنے کا ریکارڈ بھی انہیں حاصل ہے۔ساجد سد پارہ نے لاپتا کوہ پیماو¿ں کو تلاش کرنے کی کوششوں پروزیر اعظم عمران خان، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ دیگر سول اور عسکری حکام کے ساتھ ورچوئل اینڈ فزیکل بیس کیمپ ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ساجد سد پارہ نے بتایا کہ سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں تمام دستیاب وسائل استعمال اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔
ساجد سد پارہ نے کہا کہ علی سدپارہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے عالمی معیار کا ایک کلائمبنگ اسکول تعمیر کرنا چاہتے تھے، انہوں نے وزیر اعظم اور چیف آرمی سٹاف سے علی سدپارہ کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے مدد کرنے کی اپیل کی۔ان کا کہنا تھا کہ علی سدپارہ ہمیشہ انتہائی بلندی پر رہنا چاہتے تھے اور کےٹو نے انھیں ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔خیال رہے کہ پاکستان کے محمد علی سدپارہ، چلی کے جان پابلو مہر اور آئس لینڈ کے جان اسنوری موسم سرما کے دوران کے-2 کی چوٹی سر کرنے کے مشن کے دوران 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب لاپتا ہوگئے تھے۔
تینوں کوہ پیماؤں کو آخری مرتبہ کے-2 کے مشکل ترین مقام بوٹل نیک پر دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے موسم کی خراب صورتحال ان کی تلاش اور ریسکیو کی کوششوں میں مسلسل رکاوٹ بنی رہی۔محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی ‘بوٹل نیک’ (کے ٹو کا خطرناک ترین مقام) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماو¿ں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔تینوں کوہ پیماو¿ں کا جمعہ کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو ہفتے کو وہ لاپتا قرار پائے تھے۔
