نئی دہلی:زرعی قوانین کی واپسی کے اعلان کے بعد کسانوں نے دیگر متعلقہ مسائل پر مزید لڑنے کے لیے جوش و خروش کے ساتھ تیاری شروع کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ کسان مورچہ نے تحریک کے مزید پروگراموں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ متحدہ کسان مورچہ کے قائدین نے 29 نومبر کو سنسد چلو کی کال دی ہے۔ اسی دن سے پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ 26 نومبر کو غازی پور بارڈر پر کسانوں کی میٹنگ ہوگی۔ کسان رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی ضمانت دینے والا قانون نافذ نہیں کرتی اور لکھیم پور کھیری تشدد کیس میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے کمار مشرا “ٹینی” کو برطرف نہیں کرتی، تب تک ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
مزید موصول اطلاع کے مطابق متحدہ کسان مورچہ نے وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط بھی لکھا ہے، جس میں مورچہ نے 19 نومبر کو پی ایم مودی کے تینوں قوانین کو واپس لینے کے اعلان کا خیر مقدم کیا لیکن ساتھ ہی دیگر چھ مطالبات کا بھی اس میں ذکر کیا گیا ہے۔ کاشت کاری کی پوری لاگت (سی2+50%) کی بنیاد پر کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی ) کو تمام زرعی پیداوار کے اوپر کسانوں کا قانونی حق بنائیں۔ تاکہ ہر کسان کو حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کم از کم ایم ایس پی پر اپنی فصل کی خرید کی گارنٹی مل سکے۔حکومت کی طرف سے تجویز کردہ الیکٹرسٹی ایکٹ ترمیمی بل 2020/2021 کا مسودہ واپس لیا جائے۔ مذاکرات کے دوران حکومت نے اس مسودے کو واپس لینے کا وعدہ کیا تھا۔ قومی دارالحکومت کے علاقے اور اس سے منسلک علاقوں میں ہوا کے بہتر انتظام کے لئے بل لائے، کسانوں کو سزا دینے والا ایکٹ 2021 کو ہٹایا جائے۔
دہلی، ہریانہ، چندی گڑھ، یوپی اور دیگر ریاستوں میں اس تحریک کے دوران ہزاروں کسانوں کو مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔ ان مقدمات کو فوری واپس لیا جائے۔ لکھیم پور کھیری قتل کیس میں اجے مشرا آپ کی کابینہ میں شامل ہیں۔ اسے برطرف کرکے گرفتار کیا جائے۔ اس تحریک میں اب تک تقریباً 700 کسانوں نے شہادتیں دی ہیں۔ ان کے گھر والوں کے لئے معاوضے اور رہائش کا انتظام ہو۔ شہید کسانوں کی یاد میں شہدا کی یادگار بنانے کے لیے سنگھو بارڈر پر زمین دی جائے۔دریں اثنا کسان لیڈروں نے پیر کو لکھنو¿ میں جو کسان مہاپنچایت بلائی ہے اس میں متحدہ کسان مورچہ اگلی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔