سندھی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (ایس اے پی اے سی)نے پاکستان کے صوبہ سندھ میں جبری تبدیلی مذہب اور مذہبی تعصب و ظلم و ستم کے موضوع پر ایک آن لائن مباحثہ کا انعقاد کیا۔مباحثہ کا آغاز سپاک (ایس اے پی اے سی) کی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر فاطمہ گل نے کیا ۔جس میں انہوں نے نوجوان سندھی ہندو اور مسیحی بچیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے معاملات پر روشنی ڈالی ۔ اس کے بعد گل نے مباحثہ میں موجود مہمان شرکاءڈیوڈ ایل اینڈرسن، کویتا ٹیک چندنی ، سنجیش دھنجا، ہندو سنگھ سوڈھا اور بعد میں شریک ہونے والے کانگریس رکن جیمی رسکین (ڈی ایم ڈی 8ویں ڈسٹرکٹ) کا تعارف کرایا۔
سپاک کے ٹیم اراکین مائیکل کایل ، جیک مینیوتی، امبیر جارجز اور کیری پینیکس بھی موجود تھیں۔امریکی کانگریس میں نمائندے رسکین ایوان کی عدلیہ کمیٹی کے وائس رینکنگ رکن ہیں ۔ وہ ایوان کی اوور سائٹ اور حکومتی ریفارم کمیٹی اور ہاؤس ایڈمنسٹریشن سے متعلق کمیٹی کے کام کاج دیکھتے ہیں۔ کانگریس ممبر کانگریس کے سندھ کاکس کے رکن بھی ہیں۔ رسکین کی لیاقت و صلاحیت اور شہری آزادیوں اور مذہبی آزادی کے تئیں ان کی لگن نے انہیں سندھ میں مذہبی اقلیتوں اور دنیا بھر کی دیگر اقلیتوں کا ایک سرکردہ وکیل بنایا ہے۔ ریسکن نے اس قرار داد کو پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ توہین رسالت ، کفر ،بدعت اور عقیدے سے پھرنے کے تمام قوانین کو منسوخ کیا جائے اور دنیا بھر میں مذہبی قیدیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ یہ قرارداد امسال مارچ میں منظور کی جا چکی ہے۔ویبینار میں ریسکن نے کہا کہ اس وقت روئے زمین پرمطلق العنانہ حکومت اور تانا شاہوں او استبدادی اور ظالموں کے خوفناک رجحانات کا مقام انقطاع ہے اورذی اثر رہنما غائب ہو رہے ہیں۔
یہ نہایت خطرناک بات ہے اور خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد اور بڑھتی نفرت کے رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ جو بلاشبہ مطلق العنانہ اور ظالم حکومتوں کی دین ہے۔ لہٰذا ہمیں اس جانب توجہ دلانے کے لیے جو کچھ وہ سکے گا کرنا پڑے گا۔ڈیوڈ اینڈرسن کناڈا کے ایوان نمائندگان کے سابق کنزرویٹیو رکن ہیں اور سیپرس ہلز گراس لینڈز کی 2000تا2019نمائندگی کرتے رہے۔ اینڈرسن مذہبی آزادی کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرانے پر توجہ مرکوز کرنے والے قانون سازوں کے عالمی نیٹ ورک آئی پی پی ایف او آر بی (ممبران پارلیمنٹ کاانٹرنیشنل پینل برائے آزادی مذہب و عقیدہ)کے چیرمین بھی رہ چکے ہیں ۔اینڈرسن نے پاکستان میں توہین رسالت قانون پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی کاتوہین مذہب کے اصولوں پر غیر مساوی اطلاق ہے۔نوتن لال کا(ایک اسکول کا ہندو پرنسپل جس پر ایک مسلم طالبعلم نے توہین مذہب کا الزام لگایا ہے) کیس اس کی بہترین مثال ہے کہ کسی کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کا کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ معاملہ ابھی تک طے نہیں پایا ہے۔
پاکستان میں کوئی بھی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا سکتا ہے ، اس کو توہین مذہب کے مرتکب ہونے کا ملزم بنایا جا سکتا ہے اور اکثر و بیشتر الزامات بغیر کسی ثبوت کے لگا دیے جاتے ہیں۔اس پینل میں جو سب سے اہم نکتہ زیر بحث آیا وہ یہ تھا کہ ان واقعات کے لے حکومت پاکستان کو جوابدہ بنایا جائے اور وقت کا تقاضہ ہے کہ سندھ میں اقلیتوں سے مذہبی تعصب اور ان پر ظلم و ستم روکنے کے لیے دنیا بھر کے تمام قانون ساز متحد ہوجائیں۔اینڈرسن اور ریسکن قانون سازوں کی اس جانب توجہ مبذول کرنے کی اہمیت پرروشنی ڈالی اور دنیا بھر میں سکونت پذیر سندھی برادری کو تلقین کی گئی کہ وہاس اہم مسئلہ کی جانب اپنے مقامی نمائندوں کو توجہ دلائیں۔
سپاک کے ٹیم ممبر جیک مینیوٹی نے مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان تمام اقلیتوں کو داخل اسلام کر کے اچھا مسلمان بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاکہ پاکستان میں مزید یکسانیت آجائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھ میں جو جاگیردانہ مزدوری نظام میں پھنسے ہوئے ہیں، جو بنیادی طور پر سندھی مذہبی اقلیتوں کے ہیں، انہیں نجات دلانے کے لیے امداد بہم پہنچائی جائے۔ سپاک ٹیم ممبر کیری پینیکس نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی بنیادپر مظالم کا آغاز صدر ضیاءالحق کے دور میں ہوا ۔ سندھ میں مذہبی اقلیتوں پر سب سے پہلے مظالم ڈھانے کے لیتے ضیا الحق ہی ذمہ دار ہیں۔اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستانی حکومت آج انہی کے نقش قدم چل رہی ہے۔مباحثہ کے میزبا ن نے کہا کہ سپاک سندھ برادری کی جانب سے انتھک محنت جاری رکھے گی۔ تنظیم مباحثہ کے شرکاءخاص طور پر ڈیوڈ اینڈرسن اور کانگریس رکن جیمی ریسکن سے اظہار تشکر کرتی ہے کہ انہون نے اس مباحثہ میں شرکت کے لیے اپنی بیش قیمت مصروفیت میں سے وقت نکالا۔