ریاض(اے یو ایس ) سعودی عرب اور شام دونوں ممالک کے درمیان قونصلر خدمات دوبارہ شروع کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔سعودی سرکاری ٹی وی الاخباریہ نے جمعرات کو وزارت خارجہ کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ ” مملکت کی خواہش کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ضروری قونصلر خدمات کی فراہمی کے لیے ، شام میں حکام کے ساتھ قونصلر خدمات دوبارہ شروع کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔”اس سے قبل بین الاقوامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب اور شام نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل منقطع ہونے والے سفارتی تعلقات بحال کر کے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ریاض اور دمشق کے درمیان 10 مارچ کو چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی معاہدے پر دستخط کے بعد تیزی آئی ہے، دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کیے جائیں گے اور سات سال کی شدید کشیدگی کے بعد سفارتخانے دوبارہ کھولے جائیں گے۔
سعودی عرب اور شام کے درمیان تعلقات کی بحالی عرب ممالک کی جانب سے اسد حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے سلسلے میں سب سے اہم پیش رفت ہوگی۔2011 میں شام کی خونی خانہ جنگی اور جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف حکومت کے پرتشدد کریک ڈاؤن پر عرب لیگ سے معطلی کے بعد سے اسد کی حکومت خطے میں سیاسی طور پر الگ تھلگ ہے۔ اس کے علاوہ کئی عرب ممالک نے دمشق سے تعلقات منقطع کر لیے اور اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔تاہم، حال ہی میں، شام اور ترکی میں فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد اسد کو عرب دنیا کے رہنماو¿ں کی جانب سے حمایت کے پیغامات، اظہار یکجہتی کے لیے اعلیٰ سفارت کاروں کے دورے اور امدادی پیکجز موصول ہوئے۔
خاص طور پر، متحدہ عرب امارات کے ساتھ شام کے تعلقات میں بڑی پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ 19 مارچ کو اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید نے ابوظہبی میں اسد کا استقبال کیا – یہ کئی سالوں میں ان کا متحدہ عرب امارات کا دوسرا دورہ تھا، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے بھی گزشتہ ماہ شام کا دورہ کیا۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بھی متعدد مواقع پر یہ عندیہ دے چکے ہیں، انہوں نے 19 فروری کو کہا کہ عرب ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا اتفاق رائے ہے کہ شام کی تنہائی “قابل عمل” نہیں ہے، اور دمشق کے ساتھ بات چیت “کسی وقت” کم از کم “انسانی ہمدردی کے زاویے” کے حوالے سے ضروری ہے۔