Saudi Arabia's King and Crown Prince congratulate Joe Bidenتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی(اے یو ایس)سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز ، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے امریکا کے نومنتخب صدر جوزف بائیڈن اور ان کی ساتھی نومنتخب نائب صدر کمالا ہیرس کو صدارتی انتخابات میں جیت پر اتوار کے روز مبارک باد دی ہے۔امریکا میں گذشتہ منگل کے روز منعقدہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوزف بائیڈن نے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست سے دوچار کیا ہے اور وہ امریکا کے چھیالیسویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔جوبائیڈن کی ساتھی امیدوار کمالاہیرس امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔انھوں نے ٹرمپ کے ساتھی امیدوار مائیک پینس کو شکست سے دوچار کیا ہے۔وہ امریکا کی پہلی سیاہ فام اور جنوب ایشیائی نڑاد خاتون نائب صدر بھی ہیں۔لیکن ری پبلکن امیدوار صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہنوز اپنے حریف جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں جیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ابھی صدارتی انتخابات ختم نہیں ہوئے ہیں اور وہ اب عدالتی جنگ لڑنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے قریبی مصاحبین ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ امریکی ووٹروں کے فیصلے کو تسلیم کرلیں۔ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق صدر امریکا جارج ڈبلیو بش نے جو بائیڈن کو ان کی جیت پر مبارک باد دی ہے اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بائیڈن اور نائب صدر کمالا ہیرس کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے اپنے تہنیتی پیغام میں لکھا ہے کہ ”ہمارے درمیان گذشتہ قریباً 40 سال سے گرم جوشی پر مبنی ذاتی تعلقات استوار ہیں۔میں آپ کو اسرائیل کے ایک عظیم دوست کی حیثیت سے جانتا ہوں۔میں آپ کے ساتھ امریکا اور اسرائیل کے درمیان خصوصی اتحاد کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مل جل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔“انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا بھی ان کی دوستی پر شکریہ ادا کیا ہے اور انھیں اپنا ذاتی اور سیاسی اتحادی قرار دیا ہے۔نیتن یاہو نے بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس (یروشلیم) کو اسرائیل کا دارالحکومت اور گولان کی چوٹیوں پر اس کی عمل داری تسلیم کرنے،دو عرب ملکوں سے اسرائیل کے تاریخی امن معاہدے طے کرنے میں کردار اور امریکا،اسرائیل اتحاد کو بے مثال بلندی پر لے جانے پر ڈونالڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے۔واضح رہے کہ نیتن یاہو کے امریکا کے سابق صدر براک اوباما سے کچھ اچھے تعلقات استوار نہیں رہے تھے۔جو بائیڈن ان ہی کے ساتھ امریکا کے نائب صدر رہے تھے اور وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے انخلا کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وہ امریکا کی اس سمجھوتے میں دوبارہ شمولیت کے حق میں ہیں۔

نیتن یاہو سے پہلے فلسطینی صدرمحمود عباس نے بھی امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کومبارک باد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کی انتظامیہ کے ساتھ فلسطین ، امریکا تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ فلسطینی عوام کے لیے انصاف اوروقار حاصل کیا جاسکے۔صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت میں امریکا کا اسرائیل کی جانب زیادہ جھکاو¿ رہا ہے اور انھیں بے جا اسرائیل نوازی پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔انھوں نے 2018ءمیں اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلیم منتقل کردیا تھا اور اس کو اسرائیل کا ”غیرمنقسم“ دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا جبکہ گذشتہ سال مشرقی القدس میں امریکی قونصل خانے کو بند کردیا تھا۔جوزف بائیڈن صدر منتخب ہونے کی صورت میں امریکی سفارت خانے کو یروشلیم ہی میں برقرار رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔البتہ وہ مشرقی القدس میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔فلسطینی صدرمحمود عباس نے نومنتخب صدر جوبائیڈن کومبارک باد پیش کی اور کہا کہ وہ ان کی انتظامیہ کے ساتھ فلسطین ، امریکا تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ فلسطینی عوام کے لیے انصاف اوروقار حاصل کیا جاسکے۔فلسطینی صدر نے اتوار کو اپنے تہنیتی پیغام میں کہا ہے کہ ”وہ خطے اور پوری دنیا میں امن ، استحکام اور سلامتی کے حصول کے لیے بھی نئے منتخب امریکی صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔“جوزف بائیڈن قبل ازیں صدر منتخب ہونے کی صورت میں فلسطینیوں کی مالی امداد کی بحالی اور واشنگٹن میں تنظیمِ آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کا دفتر دوبارہ کھولنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ان کے ساتھ نائب صدرمنتخب ہونے والی کمالا ہیرس نے گذشتہ ہفتے جریدے ’دا عرب امریکن‘ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ”ہم فلسطینی عوام کی اقتصادی اورانسانی امداد کی بحالی کے لیے فوری طور پر اقدامات کریں گے۔غزہ میں جاری انسانی بحران کا حل نکالیں گے۔مشرقی القدس (یروشلیم) میں امریکی قونصل خانہ دوبارہ کھولیں گے اور واشنگٹن میں پی ایل او کا مشن دوبارہ کھولنے کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔“

جوزف بائیڈن اب صدر منتخب ہونے کے بعد یہ اقدامات کرتے ہیں تو وہ اس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے اقدامات پر خطِ تنسیخ پھیر دیں گے۔ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکی محکمہ خارجہ نے غربِ اردن اور غزہ کی پٹی میں آباد فلسطینیوں کی 20 کروڑ ڈالر کی سالانہ امداد بند کردی تھی اور مشرقی القدس میں رہنے والے فلسطینیوں کو الگ سے دی جانے والی ڈھائی کروڑ ڈالر کی امداد بھی روک لی تھی۔البتہ اس نے اس سال فلسطینی اتھارٹی کو کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے صرف پچاس لاکھ ڈالر کی مالی امداد دی ہے۔محکمہ خارجہ نے اپنے فیصلے کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے غزہ پر کنٹرول کی وجہ سے اس کی امداد معطل کی گئی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ حماس کو دہشت گرد قراردیتا ہے۔واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی مہاجرین کی امداد کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی ا±نروا کے فنڈ بھی روک لیے تھے اور اس پر امدادی کاموں میں بدعنوانیوں کےالزامات عاید کیے تھے۔

امریکا اس ایجنسی کو ٹرمپ انتظامیہ کےاس فیصلے سے قبل 36 کروڑ ڈالر کی سالانہ امداد مہیا کررہا تھا۔ا±نروا 1949ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد قائم کی گئی تھی۔اس کے خلاف اب بدعنوانیوں اور غلط رویوں کے الزامات کی تحقیقات کی جارہی ہے۔اس کے سربراہ نے 2019 میں بدعنوانیوں اور بدانتظامی کے الزامات پر اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت میں امریکا کا اسرائیل کی جانب زیادہ جھکاو¿ رہا ہے اور انھیں بے جا اسرائیل نوازی پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔انھوں نے 2018 میں اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلیم منتقل کردیا تھا اور اس کو اسرائیل کا ”غیرمنقسم“ دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا جبکہ گذشتہ سال مشرقی القدس میں امریکی قونصل خانے کو بند کردیا تھا۔جوزف بائیڈن صدر منتخب ہونے کی صورت میں امریکی سفارت خانے کو یروشلیم ہی میں برقرار رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔البتہ وہ مشرقی القدس میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔جو بائیڈن سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں نائب صدر رہے تھے۔وہ ماضی میں فلسطینی سرزمین کو ہتھیانے اور اس کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کی بھی مخالفت کرچکے ہیں۔انھوں نے صدر ٹرمپ کے امن منصوبہ کی بھی مذمت کی تھی۔فلسطینی قیادت ”صدی کا معاہدہ“ کے نام سے اس امن منصوبہ کو مسترد کرچکی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *