ریاض: (اے یوایس )سعودی عرب نے اردن میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مذمت کرتے ہوئے اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم کی طرف سے ملک کی سلامتی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔سعودی عرب کے شاہی دیوان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم موجودہ حالات میں اردن کے ساتھ کھڑے ہیں اور شاہ عبداللہ دوم کے ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اردن کی ہاشمی مملکت اور سعودی عرب کے درمیان گہرے دوستانہ اور بھائی چارے پرمبنی تعلقات ہیں۔ ہمارے عقاید، نظریات اور مستقبل ایک ہے۔ دونوں ممالک کی تاریخ ایک ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے جزو لا ینفک ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب موجودہ کشیدہ صورت حال میں اردن کی حکومت اور شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ کھڑا ہے۔
شاہ عبداللہ دوم اور ان کے ولی عہد شہزادہ حسین بن عبداللہ دوم نے ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے جو بھی اقدامات اٹھائے ہیں سعودی عرب ان کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔خیال رہے کہ اردن میں حکام نے سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں ان کے محل میں نظربند کردیا ہے اور شاہی دیوان کے سابق سربراہ باسم عوض اللہ سمیت بیس افراد کو گرفتارکرلیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ افراد ملکی استحکام وسلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے،اس لیے انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کی جائے گی۔
اردن کی سرکاری خبررساں ایجنسی بطرا نے ہفتے کے روز ان افرادکو حراست میں لینے کی اطلاع دی ہے۔اس نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کی گرفتاری سکیورٹی وجوہ کی بنا پر عمل میں آئی ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جارہی تھی۔البتہ بطرا کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد میں پرنس حمزہ شامل نہیں ہیں۔بعض میڈیا اداروں نے ان کی گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔ان میں مو¿قرامریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ بھی شامل ہے۔اس نے پرنس حمزہ کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔تاہم بعض اطلاعات کے مطابق اردن کے سابق شاہ حسین کی امریکانڑاد بیوہ ملکہ نوراور بڑے بیٹے شہزادہ حمزہ بن حسین کودارالحکومت عمان میں ان کے محل میں نظربند کردیا گیا ہے۔
انھوں نے مبیّنہ طور پر اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ دوم کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی اور اب ان کے خلاف تحقیقات کی جائے گی۔اردن کے شاہی محل کے حکام کے مطابق یہ اقدام ایک پ±رپیچ اور پیچیدہ محلّاتی سازش کا پتا چلنے کے بعد کیا گیا ہے۔اس میں شاہی خاندان کے ایک فرد کے علاوہ قبائلی سردار اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بعض ارکان شریک تھے۔