واشنگٹن: (اے یو ایس ) امریکی سینیٹ کے بیس سے زیادہ ارکان نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا ہے۔اس میں فلسطینی نڑاد امریکی صحافی شیرین ابوعاقلہ کے قتل کی تحقیقات میں امریکہ کے براہ راست حصہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔انھیں ایک ماہ قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں کی چھاپہ رکارروائی کی کوریج کے دوران میں گولی مار کرقتل کردیا گیا تھا۔صدر بائیڈن کوجمعرات کو ارسال کیے گئے مکتوب پر24 ڈیموکریٹ سینیٹروں نے دستخط کیے ہیں۔
العربیہ نے اس خط کی ایک نقل حاصل کی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ واقعہ کے وقت سے ابوعاقلہ کے قتل کی آزادانہ، مکمل اور شفاف تحقیقات کی جانب کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔امریکا نے باربارکہا ہے کہ اسرائیل ایسے واقعات کی مکمل اورآزادانہ تحقیقات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس لیے اس نے اس عمل میں شامل ہونے سے انکارکر دیا ہے۔البتہ امریکہ نے فلسطینی اور اسرائیلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مل کرتحقیقات پر کام کریں لیکن فلسطینی حکام نے مشترکہ تحقیقات کی اسرائیلی پیش کشوں کومسترد کردیا ہے اور ابوعاقلہ کی موت کا سبب بننے والی گولی بھی صہیونی حکام کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے۔سینیٹر کرس وان ہولین کی قیادت میں لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پریس کی آزادی کے تحفظ کے لیے امریکا کے زیراہتمام مکمل اور شفاف تحقیقات کی جانی چاہئیں تاکہ سچائی تک پہنچ سکیں اوراس امریکی شہری اورصحافی کے قتل کا احتساب کیا جا سکے۔
الجزیرہ کی معروف نامہ نگارابوعاقلہ کو فلسطینی قصبے جینین میں 11 مئی کو اسرائیلی فوج کی چھا پہ مارکارروائی کے دوران میں گولی مارکرموت کی نیند سلادیا گیا تھا۔فلسطینی قیادت نے اسرائیلی فوج پر صحافیہ کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ویڈیو فوٹیج میں 51 سالہ ابوعاقلہ کوجیکٹ پہنے دکھایا گیا تھا۔اس پر جلی حروف میں پریس کا لفظ نظرآ رہا تھا لیکن اسرائیل نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔امریکی قانون سازوں نے صدر بائیڈن پرزوردیا ہے کہ ان کی حکومت صحافی کے قتل کی غیرجانبدارانہ اور کھلی تحقیقات کو یقینی بنائے۔خط میں فلسطینیوں اوراسرائیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ زمینی سطح پرکوئی بھی فریق دوسرے پر قابل اعتماد اورآزادانہ تحقیقات کابھروسہ نہیں کرتا ہے۔سینیٹرز نے کہاکہ اس وقت ہم سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکا محترمہ ابوعاقلہ کی موت کی تحقیقات میں براہ راست حصہ لے۔یہ خط کانگریس کے پچاس سے زیادہ اراکین کے اسی طرح کے ایک مراسلے کے بعد سامنے آیا ہے۔
اس میں محکمہ خارجہ اور ایف بی آئی سے ابوعاقلہ کے قتل کی اپنی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔خط میں حالیہ ہفتوں میں سامنے آنے والی نئی معلومات کے بعد امریکا سے تحقیقاتی عمل میں شرکت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔وہ خط میں واشنگٹن پوسٹ، سی این این اور ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی تحقیقات کا حوالہ دے رہے تھے۔اس میں یہ نتیجہ اخذکیاگیا تھا کہ جب ابوعاقلہ کو گولی مارکرقتل کیا گیاتھا توفائرنگ کے مقام سے کسی فلسطینی نے کوئی فائرنگ نہیں کی تھی۔
نیدرلینڈزکی ایک آزاد اوپن سورس ریسرچ فرم بیلنگ کیٹ نے سوشل میڈیا پرپوسٹ کی گئی ویڈیوز سے اخذ کردپ مواد کا اپنا تجزیہ پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے ابتدائی نتائج نے فلسطینی گواہوں کی حمایت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کی نامہ نگاراسرائیلی گولی ہی کا نشانہ بنی تھیں۔واضح رہے کہ شیرین ابوعاقلہ عرب دنیا میں ایک گھریلو نام تھیں۔وہ اسرائیلی فوج کے زیرقبضہ علاقوں میں فلسطینی زندگی کی مشکلات کو دستاویزی شکل دینے کے لیے جانی جاتی تھیں۔دنیا بھر سے ان کے اندوہناک قتل کی مذمت کی گئی تھی۔اس کے علاوہ اسرائیلی پولیس کے جارحانہ طرزعمل کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس نے ابوعاقلہ کی آخری رسومات کے موقع پرسوگواروں پردھاوا بول دیا تھا اورانھیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے سوگواروں کے ہاتھوں سے مقتولہ کا تابوت بھی گرگیا تھا۔
