محمد ریاض ایڈووکیٹ(پاکستان)
خطہ برصغیر پاک و ہند میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں بنائے گئے مذہب قادیانیت کا مسئلہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان میں حل طلب تھا۔ 1947 سے لیکر وقفے وقفے سے قادیانیت کے خلاف تحریکیں چلتی رہیں ، اور ان تحریکوں میں بہت سے مسلمانان پاکستان حکومتی ظلم و ستم کا شکار ہوئے بہت سے مسلمان پابند سلاسل بھی ہوئے اور بہت سے مسلمانوں نے شہادت کا عظیم رتبہ بھی پایا۔یاد رہے ان تحریکوں میں تمام مکاتب فکرکے مسلمانوںنے بھرپور حصہ لیا تھا۔ اس حوالے سے زیادہ مشہور 1953 کا سا ل ہے کیونکہ اس سال ان تحریکوں کے تسلسل کو بہت زیادہ عروج دیکھنے کو ملا اور اسی سال کئی علما مثلاً عبدالستار خان نیازی اور ابو الاعلیٰ مودودی کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی لیکن اس پر عملدر آمد نہ ہوسکا۔ قادیانیت کے خلاف تحریکیں چلتی رہیں اور شمع رسالت اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے پروانے اپنی جانیں نچھاور کرتے رہے۔رد قادیانیت تحریک کو سب سے زیادہ عروج اس وقت ملا جب 29مئی 1974 میں صوبہ پنجاب کے شہر ربوہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے طلبہ پر قادیانیوں نے حملہ کرکے تشدد کیا جس میں ان کے ناک، کان اور جسم کے دیگر اعضا بے دردی سے کاٹ ڈالے گئے۔ جسے سانحہ ربوہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور اس واقعہ کے تھوڑا عرصہ بعد مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی میں 30 جون 1974 احمدیوں اور لاہوری گروہ کے خلاف ایک قرارداد پیش کی کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جبکہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں لہٰذا اس باطل عقیدے کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
بالآخرپاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی قیادت نے مل بیٹھ کر دنیا میں رائج طریقہ کار یعنی پارلیمنٹ کے ذریعہ سے ملکی آئین میں ترمیم کرکے دہائیوں سے حل طلب مسئلہ کو بخوبی حل کردیا۔یاد رہے آئین میں ترمیمی بل کو پاس کرنے سے پہلے پوری پارلیمنٹ کو کمیٹی روم کا درجہ دے دیا گیا اور قادیانی مذہب کے اکابرین باوجود یہ کہ وہ پارلیمنٹ کے ممبر نہ تھے انکو اس کمیٹی روم میں کھل کر اپنے عقائد کے دفاع کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔دوسری جانب مسلمانوں کی جانب سے اس وقت کے جید علما کرام جن میں مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود بہت نمایاں تھے انہوں نے رد قادیانیت میں اپنے دلائل پیش کئے۔ رد قادیانیت میں علما کے علاوہ دیگر بہت سے سیاست دانوں نے حصہ لیا جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان کا نام نمایاں ہیں۔ قومی اسمبلی کے اکثریت ارا کین نے اس قرارداد کی حمایت میں دستخط کر دیے۔احمدی اور لاہوری گروپ کے نمائندوں کو ان کی خواہش کے مطابق اپنی صفائی کا مکمل موقع دیا گیا اور ایک ماہ اس پر بحث ہوتی رہی اور کئی کئی گھنٹے کیمرے کے سامنے بیانات و دلائل و جرح کا سلسلہ جاری رہتا۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل یحیٰی بختیار فریقین کے مو¿قف کو سن کر ایک دوسرے تک بیان پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔یاد رہے اس پوری کاروائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ انہوں نے ملک میں پائی جانے والی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اسے فوری حل کرنے کے لئے اپنا مثبت اور قائدانہ کردار ادا کیا۔بہت سے سیاست دان اس تحریک سے قبل اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف تھے، لیکن جب انہیں احمدی نمائندوں (مرزا ناصر وغیرہ) کے قول و اقرار سے اصل صورتحال کا علم ہوا تو وہ بھی اپنے ایمان کی حفاظت کے سلسلہ میں سنجیدہ ہو گئے، با لآخرخر مرزا ناصر سے ایک سوال ہوا کہ اگر کبھی دنیا میں کہیں تم لوگوں کی حکومت قائم ہو جائے تو تم (احمدی/مرزائی) غیر احمدی کلمہ گو مسلمانوں کو وہاں کس درجے میں رکھو گے تو اس نے جواب دیا کہ ہم انہیں اقلیت سمجھیں گے، یوں اس کے اپنے کلیہ کے مطابق احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
اب پاکستان کے مسلمان غیر سرکاری طور پر 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت ﷺکے طور پر مناتے ہیں۔اس قانون کی منظوری کے بعد احمدیوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اس آئینی ترمیم کو چیلنج کیا۔لیکن احمدی اعلیٰ عدالتوں میں بھی خود کو مسلمان ثابت نہ کر سکے۔ آئین کے آرٹیکل 106ا ور آرٹیکل 260 میں واضح ترامیم کی گئیں۔ان ترامیم کے بعد آئین پاکستان میں لفظ مسلمان یا مسلم میں پائے جانے والے ابہام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ? درحقیت اتحاد بین المسلمین کی ضمانت ہے یعنی یہ مسلمانوں کے مشترکہ اور متفقہ عقائد میں سے ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس نے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہواہے ، ورنہ ہم مسلمان کم بلکہ سنی، شیعہ، دیوبندی، حنفی ، بریلوی، وہابی زیادہ ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح سے رد قادیانیت کے موقع پر تمام مکاتب فکر کے علمائ کرام نے اپنے اپنے مسلکی و فروعی مسائل کو پس پشت ڈال کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت ﷺ پر پہرہ دیا، اسی طرح ہم سب کو چھوٹے چھوٹے مسلکی و فروعی مسائل کو پس پشت ڈال کر اتحاد بین المسلمین کا شاندار عملی مظاہرہ کرنا چاہئے اور محراب و منبر سے دوسرے مکاتب فکر کے مسلمانوں کیخلاف کفریہ، مشرک، بدعتی، گستاخ وغیرہ کے فتووﺅں کو چھوڑنا ہوگا۔ اسی میں مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کی بقا و بھلائی ہے۔اللہ کریم کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آقا تاجدار ختم نبوت ﷺ پر اور آپ کے اہل بیت اور اصحاب پاک رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پراور عقیدہ ختم نبوت کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں پر اور 1974 میں دوسری آئینی ترمیم کروانے والے جید علماکرام اور سیاستدانوں پر۔