مولانامحمدقمرانجم قادری فیضی
سدھارتھ نگریوپی
یوں تو قرآن کریم کی تلاوت تمام ذکروتسبیحات سے اور وظیفوں وغیرہ سب سے افضل ہروقت ہے لیکن ایک خاص بات جو رمضان المبارک کےاندر جو کرنے میں ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ بھوکوں کو کھانا کھلانے، اور پریشان حالوں کی پریشانیوں کو دورکرنے کا نیز اس مہینے میں لوگوں کے رزق کشادہ کردئے جاتے ہیں۔
اسی کی بنیاد پر بزرگان کرام کا ہمیشہ سے یہ طریقہ ووطیرہ رہاہے کہ اور آج بھی عالم اسلام کے مسلمان یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ رمضان شریف میں تلاوت قرآن اور دیگر اعمال حسنہ کرنے کے ساتھ ساتھ روزہ داروں کو افطارکرانےکا بہت ذوق شوق سے اہتمام کرتے ہیں اور جو شخص اگر کسی روزے دارکو افطار کراتاہے تو اس کے لئے بیشمارنعمتیں،رحمتیں،برکتیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی رہتی ہیں، یہاں پرناظرین کےلئے کچھ حدیث پاک پیش کررہاہوں
افطار کرانے کی فضیلت
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص روزہ دار کو افطار کراتا ہے یا کسی غازی کا سامان درست کرتا ہے تو اس کو اسی کے ثواب جیسا ثواب ملتا ہے (بیہقی فی شعب الایمان)
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جو شخص حلال کمائی سے رَمَضان میں روزہ افطار کرائے، اُس پر رمَضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں، اور شبِ قدر میں جِبرئیل علیہ السلام اس سے مُصافَحہ کرتے ہیں، اور جس سے حضرت جبرئیل علیہ السلام مصافحہ کرتے ہیں (اُس کی علامت یہ ہے کہ) اُس کے دِل میں رِقَّت پیدا ہوتی ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔(روح البیان)
فائدہ: ہمارے ہاں افطار کرانے کا بڑا ذوق شوق پایا جاتا ہے، اس کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے تاہم یہ خیال بھی رکھا جائے کہ یہ سب کرنا صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے واسطے ہو، کوئی دکھلاوا مقصود نہ ہو، ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہوگا، اسی طرح افطاری اپنی حیثیت کے مطابق کرائے اور اسراف سے بھی بچے، بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ سڑکوں کے اطراف پر افطارکے دسترخوان لگے ہوتے ہیں اور بعد میں رزق کی ناشکری ہورہی ہوتی ہے، یہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب ہے۔
افطار پر شکر گزاری:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ افطار کرتے تو یہ فرماتے:
پیاس چلی گئی، رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو ثواب ثابت ہو گیا۔(ابودا¶د)
افطار کی دعائیں:
1- حضور اکرم ﷺ جب افطار کرتے تو دعا فرماتے:
اللہم لک صمت وعلی رزقک ا¿فطرت
اے اللہ!میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور اب تیرے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں۔(رواہ ا¿بو داود مرسلا)
فائدہ: ابن ملک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ یہ دعا افطار کے بعد پڑھا کرتے تھے، اس دعا میں {ولک صمت کے بعد یہ الفاظ و بک آمنت و علیک توکلت} عام طور سے پڑھے جاتے ہیں، یہ الفاظ بھی اگرچہ حدیث سے ثابت ہیں اور معنی کے اعتبار سے صحیح ہیں، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
2- آپ ﷺ یہ بھی پڑھا کرتے تھے:
{الحمدللہ الذی ا¿عاننی فصمت و رزقنی فافطرت} تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے میری مدد کی کہ میں نے روزہ رکھا اور مجھے رزق عطا فرمایا کہ میں نے افطار کیا۔
3- حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ افطار کے وقت یہ دعاکرتے تھے:
اے اللہ! تیری اُس رحمت کے صدقے جو ہرچیز کو شامل ہے، یہ مانگتاہوں کہ تو میری مغفرت فرمادے۔
4- بعض کُتب میں خود حضور اکرم ﷺ سے یہ دُعا منقول ہے:
اے وسیع عطاوالے! میری مغفرت فرما۔
اَور بھی مُتعدِّد دعائیں رِوایات میں وَارِد ہوئی ہیں، مگر کسی دعا کی تخصیص نہیں، اِجابتِ دُعا کا وقت ہے، اپنی اپنی ضرورت کے لیے دُعا فرماویں، یاد آجائے تو اِس سِیاہ کار کو بھی شامل فرمالیں، کہ سائِل ہوں، اور سائل کا حق ہوتا ہے۔
ہوائی جہاز میں روزہ دار کو جب آفتاب نظر آرہا ہے تو اِفطار کرنے کی اجازت نہیں ہے، طیارہ کا اعلان بھی مہمل اور غلط ہے، روزہ دار جہاں موجود ہو وہاں کا غروب معتبر ہے، پس اگر وہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہو اور اس بلندی سے غروبِ آفتاب دِکھائی دے تو روزہ اِفطار کرلینا چاہئے، جس جگہ کی بلندی پر جہاز پرواز کر رہا ہے وہاں کی زمین پر غروبِ آفتاب ہو رہا ہو تو جہاز کے مسافر روزہ اِفطار نہیں کریں گے۔اگر کسی نے غلطی سے غروب سے پہلے روزہ کھول لیا جائے تو قضا واجب ہوتی ہے، کفارہ نہیں، اگر اس پر اس وقت روزہ فرض ہوچکا تھا تو وہ روزہ کی قضا کرلے اور اگر کسی نے اس طرح غلطی کی اور اب وہ فوت ہوچکا ہو تو اس کے اس روزے کا فدیہ ادا کردے، اور فدیہ یہ ہے کہ کسی محتاج کو دو وقت کھانا کھلانا، یا پونے دو کلو گندم کی قیمت نقد دے دینا۔
مسجد میں کوئی چیز تقسیم کردینا درست ہے بشرطیکہ مسجد کو آلودہ کرنے والی چیز نہ ہو، اسی طرح مسجد میں افطار کرنا جائز ہے مگر مسجد کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔
مہینوں کے نام کی وجہ
رمضان یہ ”رمض” سے بنا جس کے معنی ہے گرمی سے جلنا کیونکہ جب مہینوں کے نام قدیم عربوں کی زبان سے نقل کیے گئے تو اس وقت جس قسم کا موسم تھا اس کے مطابق مہینوں کے نام رکھ دیے گئے اتفاق سے اس وقت رمضان سخت گرمیوں میں آیا تھا اسی لئے یہ نام رکھ دیا گیا. حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعد مفسرین علیہ رحمتہ الرضوان فرماتے ہیں جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو جس موسم میں جو مہینہ تھا اسی سے اس کا نام ہوا جو مہینہ گرمی میں تھا اسے ”رمضان” کہہ دیا گیا اور جو موسم بہار میں تھا اسے ”ربیع الاول” اور جو سردی میں تھا جب پانی جم رہا تھا اسے ”جمادی الاولی” کہا گیا۔
صغیرہ کبیرہ گناہوں کا کفارہ۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: حضور نبی اعلی شافع یوم النشور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان پر سرور ہے، پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہ رمضان اگلے رمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔کاش پورا سال رمضان ہی ہو۔مصطفی جان رحمت، حضور محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے: اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش! پورا سال رمضان ہی ہو۔بھلائی ہی بھلائی ہو
امیر الم¶منین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتےہیں، اس مہینے کو خوش آمدید جو ہمیں پاک کرنے والا ہے پورا رمضان خیر ہی خیر (یعنی بھلائی ہی بھلائی) ہے دن کا روزہ ہو یا رات کا قیام، اس مہینے میں خرچ کرنا ”جہاد میں خرچ کرنے کا درجہ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاہے کہ اپنے پیار ے محبوب ﷺ کے صدقے و توسل سے ہم سب کو اعمال حسنہ کرنے کی اور رمضان شریف کے روزے رکھنے کی، نماز پڑھنے کی اور کثرت کے ساتھ تسبیح وتحلیل،ذکرواذکاراورادووظائف غیرہ پڑھنے اورکرنےکی توفیق فرمانیزغریبوں،فقیروں،یتیموں، کی مدد کرنے کی توفیق رفیق فرما۔آمین
ای میل:qamaranjumfaizi@gmail.com