Signs of changing in India's policy towards Talibanتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

ہندوستان اور افغانستان میں صدیوں پرانے اور دوستانہ رشتے ہیں۔ ہندوستان نے افغانستان کو ہمیشہ ایک دوست ملک سمجھا اور اس کی مدد کے لیے آگے آیا۔ ہندوستان نے کابل میں پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیر کی، اسپتال بنوائے، اسکول بنوائے، سڑکوں کی تعمیر میں یہاں کے ورکر مصروف ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے کام میں بھی ہندوستانی انجینئر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان میں اس وقت تقریبا 1700 ہندوستانی موجود ہیں جو وہاں واقع ہسپتالوں، بینکوں اور سکیورٹی اور آئی ٹی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں۔ ہندوستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ ایک خوشحال، ترقی یافتہ، مستحکم اور جمہوری افغانستان کے حق میں ہے۔ جب افغانستان میں سوویت روس کی پسپائی کے بعد طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو ہندوستان نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ کیونکہ وہ اس وقت کے طالبان کی پالیسی کا حامی نہیں تھا۔ طالبان خلافت یا امارت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے ہندوستان اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ جتنے دنوں تک افغانستان میں طالبان کی حکومت رہی دونوں ملکوں میں سفارتی رشتہ منقطع رہا۔ لیکن جب 2001 میں امریکی حملے کے بعد طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور وہاں حامد کرزئی کی حکومت قائم ہوئی تو ایک بار پھر دونوں ملکوں میں سفارتی اور دوستانہ رشتوں کا احیا ہو گیا۔ اشرف غنی کی حکومت میں باہمی رشتوں کو مزید فروغ حاصل ہوا اور اس وقت دونوں دوست ممالک کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہندوستان کی طالبان پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔ اب شاید ہندوستان کو طالبان سے وہ پرہیز نہیں رہ گیا جو پہلے تھا۔ حالیہ دنوں میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ ہندوستان کی پالیسی بدل رہی ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ امریکی حملے کے بعد سے اب تک افغانستان میں بڑی تعداد میں افغان شہریوں اور فوجیوں کے ساتھ ساتھ امریکی شہری اور فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ صورت حال کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ انھوں نے افغانستان سے بتدریج امریکی افواج میں کمی کی۔ اس وقت بہت کم تعداد میں امریکی فوجی افغانستان میں ہیں۔

ٹرمپ نے اس کے علاوہ ایک اور بڑا کام کیا۔ وہ کام یہ ہے کہ انھوں نے طالبان سے سمجھوتہ کر لیا اور پھر ان کی کوششوں سے ہی افغان حکومت سے بھی طالبان کا سمجھوتہ ہو گیا۔ قطر کے دار الحکومت دوحہ میں سمجھوتوں کی کارروائی مکمل ہوئی۔ اس سلسلے میں پاکستان کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغان طالبان پر پاکستان کا زبردست اثر ہے اور پاکستان کی کوششوں سے ہی طالبان مذاکرات کی میز پر آئے اور اب بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے۔ جب دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ ہوا اور اس پر دونوں کے دستخط ہوئے تو اس وقت ہندوستان نے قطر میں اس وقت کے اپنے سفیر پی کمارن کو اس تقریب میں شرکت کی ہدایت دی تھی۔ اس سے قبل جب روس کے دار الحکومت ماسکو میں میٹنگ ہوئی تھی تو ہندوستان کی جانب سے بھی نمائندے شریک ہوئے تھے البتہ انھوں نے بات چیت میں کسی بھی قسم کا حصہ نہیں لیا تھا۔ ان کو خاموشی سے حالات کا مشاہدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ابھی گزشتہ دنوں جب دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کی تقریب منعقد ہوئی تو ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے اس میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری (افغانستان، پاکستان) جے پی سنگھ کو یہاں سے وہاں بھیجا گیا۔ اس سے قبل فروری میں جب دوحہ میں بات چیت کی تقریب منعقد ہوئی تھی تو خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا یہاں سے گئے تھے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مذاکرات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان اور افغانستان کے مابین تاریخی تعلقات اور تعاون پر بات کی۔ انھوں نے زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں اقلیتوں اور خواتین کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہندوستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔

ادھر امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغان مصالحت زلمے خلیل زاد نے گزشتہ دنوں پہلے اسلام آباد اور پھر نئی دہلی کا دورہ کیا۔ انھوں نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو پاتے۔ انھوں نے نئی دہلی میں ایس جے شنکر سے ملاقات کی اور انھیں دوحہ مذاکرات کے سلسلے میں تفصیلات بتائیں۔ اس ملاقات میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا بھی موجود تھے۔سیاسی مشاہدین کا خیال ہے کہ طالبان کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب صورتحال بدل رہی ہے اور طالبان کا رویہ بھی پہلے کے مقابلے میں نرم ہوا ہے اور ہندوستان کے رخ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس کا آغاز دراصل نومبر 2018 میں ہوا تھا جب روس میں طالبان کو بلایا گیا تھااور اس میں ہندوستان کے دو ریٹائرڈ سفارتکار مبصر کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔ مبصرین کے مطابق اب جو طالبان ہیں وہ 1990 کی دہائی کے طالبان سے مختلف ہیں۔ وہ ایک اسلامی ملک بھی چاہتے ہیں اور اس میں دوسروں کی شمولیت کی بات بھی کرتے ہیں۔ انھیں بھی بین الاقوامی قبولیت کی ضرورت ہے۔ پھر ہندوستان کو افغانستان میں زمینی سطح پر لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ کوئی دوسرا ملک وہ کام نہیں کر سکے گا جو ہندوستان نے وہاں کیا ہے۔ اگر دوسری حکومت بھی آجائے تو وہ اس چیز کو نظرانداز نہیں کرسکے گی۔ان کا خیال ہے کہ یہ ساری چیزیں ایسی حکومت کے لیے درست ہیں جو جمہوری ہے اور جو جوابدہ ہے۔ لیکن اگر طالبان اسلامی قانون کی پیروی کرتے ہیں اور آمرانہ رویہ اپناتے ہیں تو بات بگڑ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں مذاکرات کون سا رخ اختیار کرتے ہیں یہ بات اہم ہوگی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی تشویش طالبان کے مختلف لوگوں سے تعلقات کے بارے میں ہے۔ ان تعلقات میں پاکستان اور چین کا کردار بھی اہم ہوجاتا ہے۔ چین بھی افغانستان میں تانبے اور لوہے کی کانوں میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔ وہ ون بیلٹ ون روڈ اسکیم کے تحت بہت سارے ممالک پر اپنے اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ چین پاکستان اور طالبان پاکستان کی قربت بھی واضح ہے۔ ایسی صورتحال میں چین پاکستان کی مدد سے طالبان کے ساتھ قربت بڑھا سکتا ہے جو ہندوستان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ تجزیہ کار اس سے کسی حد تک متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین یقینی طور پر افغانستان میں ایک کھلاڑی ہوگا۔ نئے نظام میں وہ بھی افغانستان میں اپنے اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ چین نے ماضی میں وہاں سرمایہ کاری کی ہے لیکن وہاں زیادہ کام نہیں کر سکا ہے۔ جبکہ ہندوستان نے زمینی سطح پر کام کیا ہے۔ وہ دوسرے ملک کی فکر کیے بغیر اپنی طاقت پر کام کرتا ہے۔

پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان بالکل پاکستان کی خواہش کے مطابق کام کرتے ہیں تو ہندوستان کے لیے پریشانی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن سمجھا جاتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کچھ رواداری برتیں گے اور وہ اپنی خواہش کے مطابق حکومت چلائیں گے۔ کسی بھی حکومت کی طرح وہ بھی دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گے۔اس سلسلے میں ایک سابق سفارتکار پناک رنجن چکرورتی نے راقم الحروف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب طالبان بھی کافی بدل گئے ہیں۔ ان کو بھی دوسرے ملکوں سے تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ لہٰذا 90 کے طالبان او راب کے طالبان میں بہت فرق ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان کی پالیسی بدل رہی ہے اور افغانستان بھی بدل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے ضرور ہندوستان سے کوئی وعدہ کیا ہوگا جسے ہندوستان نے تسلیم کیا اور ا س کے موقف میں تبدیلی آئی ہے۔ وہ اس خیال کے بھی حامی ہیں کہ اب افغان طالبان پاکستان کے اثر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یقینی طور پر ہندوستان سے طالبان کے رشتے ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے۔ بہر حال بیشتر تجزیہ کار اس بات سے متفق ہیں کہ نہ صرف ہندوستان کے بلکہ طالبان کے موقف میں بھی تبدیلی آئی ہے اور اگر وہاں طالبان کی حکومت بنتی ہے یا وہ اقتدار میں حصے دار بنتے ہیں تو ہندوستان سے بہر حال ان کے رشتے خراب نہیں ہو ںگے۔ کیونکہ ہندوستان نے افغانستان میں تعمیر و ترقی کے جو کام کیے ہیں اور جو کر رہا ہے وہ سب بھی طالبان کی نظروں میں ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ ہندوستان ان پروجکٹوں سے ہاتھ کھینچ لے اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں شرکت سے باز آجائے۔ ہندوستان بھی ان پروجکٹوں کو بند کرنا نہیں چاہے گا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی نظریات و خیالات ہیں ادارہ اردو تہذیب کا بھی یہی نظریہ و خیالات ہونا ضروری نہیں)
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *